تکرار کے معنی
تکرار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ تَک + رار }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے جو اردو میں اپنے اصلی معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٥٨٢ء کو "کلۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بار بار کہنا","بحث و مباحثہ","حجّت (کرنا۔ ہونا کے ساتھ)","حیص بیص","لفظی نزاع","لفظی یا زبانی لڑائی","لڑائی جھگڑا","لے دے","مکرر کہنا","مُکرّر سہ کرّر کہنا"]
کرر تَکْرار
اسم
اسم کیفیت ( مذکر، مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : تَکْراریں[تَک + را + ریں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : تَکْراروں[تَک + را + روں (و مجہول)]
تکرار کے معنی
نہ قائل ہوئے تھے نہ ہونگے ہیں ہم بڑھاتا ہے ناحق کو تکرار واعظ (١٩٥٠ء، کلیات حسرت، ٧٢)
"صاحبانِ پارلیمنٹ مقدمہ کو فیصل کرتے ہیں اور کیسی کیسی تکراریں درمیان میں لاتے ہیں۔" (١٨٨٠ء، ماسٹر رام چندر، ١١٦)
"ذاتی مشاہدے کو وہ اپنی داستان میں اتنے تکرار سے بیان کرتا ہے کہ. اس بحث سے اکتا جاویں۔" (١٩٠٠ء، بسنت سالہ عہدِ حکومت، ٨)
"جب تم کو معلوم ہوا کہ کائنات کی تکرار واجب نے پس مرکبات، عنصریہ موالید ثلثہ باقی نہیں رہتے۔" (١٩٢٥ء، حکمۃ الاشراق، ٤٣٥)
چکانا ہے کیسا یہ تکرار کیسی یونہی چھین لو دل کی قیمت کہاں کی (١٨٧٢ء، عروس الاذکار، ١٠١)
"اس زمانہ تک خاص نصاب اور کتابوں کے سبق کا طریقہ نہ تھا اور نہ طلبہ سبق کو پڑھنے کے بعد اس طرح دھراتے تھے خیام، جسکے لیے ہمارے عربی مدرسوں میں "تکرار" کی اصطلاح جاری ہے۔" (١٩٣٢ء، خیام، ٣٦)
"صحن کے دوسری طرف حاشیے اور ستونوں کے نقش بنے ہوئے تھے انہیں کی نقل و تکرار سے پوری کمان کو. معمور کر دیا۔" (١٩٣٢ء، اسلامی فنِ تعمیر، ٢٦)
"اِن نئی روایات کے بڑے بڑے اصول متناسب تکرار اور موزنیت ہیں۔" (١٩٣٢ء، مسلمانوں کے فنون، ٣٢)
"پس اگر تاکید منظور نہ ہو تو تکرار عیب ہے۔" (١٨٨١ء، بحر الفصاحت، ١٧٢)
کیا مزا تکرار میں ایک بار جب فرما چکے منہ کو کیوں میٹھا کرو پھر جب مٹھائی کھا چکے (١٩٣٠ء، اردو گلستان، ١٣٥)
اے کوزہو گرد یہی ہے تم سے تکرار برباد کرو نہ خاک میری زنہار (١٨٤٤ء، نذر خیام، ٧١)
تکرار کے مترادف
ضد, لڑائی, جھنجھٹ, حجت, جھڑپ, مباحثہ, شاخسانہ
بحث, بحثابحثی, تنازعہ, توتکار, جھگڑا, حجت, دہرانا, غوغا, مباحثہ, مجادلہ, ٹنٹا, کَرَّ
تکرار کے جملے اور مرکبات
تکرار واجب
تکرار english meaning
altercationargumentcontentioncontroversydisputeRepetitiontautology
شاعری
- شکوۂِ جود غلط ہے تو چلو یوں ہی سہی
حشر کا دن ہے بڑھانی نہیں تکرار مجھے - تمہیں مجھ سے محبت ہے
محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے!
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہوجائے
اِسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقیں کی آخری حد تک دِلوں میں لہلہاتی ہو!
نگاہوں سے ٹپکتی ہو‘ لہُو میں جگمگاتی ہو!
ہزاروں طرح کے دلکش‘ حسیں ہالے بناتی ہو!
اِسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے
محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفلِ سادہ شام کو اِک بیج بوئے
اور شب میں بارہا اُٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے کہ پودا اب کہاں تک ہے!
محبت کی طبیعت میں عجب تکرار کی خو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی
بچھڑنے کی گھڑی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دُھن ہے
کہو … ’’مجھ سے محبت ہے‘‘
کہو … ’’مجھ سے محبت ہے‘‘
تمہیں مجھ سے محبت ہے
سمندر سے کہیں گہری‘ ستاروں سے سوا روشن
پہاڑوں کی طرح قائم‘ ہواؤں کی طرح دائم
زمیں سے آسماں تک جس قدر اچھے مناظر ہیں
محبت کے کنائے ہیں‘ وفا کے استعارے ہیں
ہمارے ہیں
ہمارے واسطے یہ چاندنی راتیں سنورتی ہیں
سُنہرا دن نکلتا ہے
محبت جس طرف جائے‘ زمانہ ساتھ چلتا ہے - جب کہ الٹی ہم نے تکرار نظر پر آستیں
کھینچ لی اس نے رخِ رشکِ قمر پر آستیں - پتیارا نہیں ترے کہنے کا چپ حیران کرنا ہے
جو من میں نہیچھ ملنے کا تو پھر تکرار کرنا کیا - سخت گوئی سے تجھے چاہیے اے یار لحاظ
بات بڑھ جاتی ہے، کھودیتی ہے تکرار لحاظ - وعدہ وصل کی تکرار نے ہم کو مارا
فیصلہ خوب ہوا بات کے بڑھ جانے سے - پتیارا نیں ترے کہنے کا چب حیران کرنا ہے
جو من میں نہینچھ ملنے کا تو پھر تکرار کرنا کیا - دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں - اے تجلی کیا ہوا شیوہ تری تکرار کا
مر گیا آخر کو یہ طالب ترے دیدار کا - پھر آگے مانے نہ مانے ہے اختیار اس کا
جو کہنے پاؤ تو تکرار سے یہی کہنا
محاورات
- تجلی کو تکرار نہیں
- تکرار کرنا
- تکرار ہونا