جا بجا کے معنی
جا بجا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ جا + بَجا }
تفصیلات
iفارسی زبان میں اسم |جا| کی تکرار کے درمیان حرف جار |ب| لگنے سے |جا بجا| مرکب بنا اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور متعلق فعل مستعمل ہے۔ ١٥٠٠ء میں "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ہر ایک موقع پر","ہر جگہ","ہر مقام پر"]
اسم
متعلق فعل
جا بجا کے معنی
١ - جگہ جگہ، ہر جگہ۔
"مولود شریف کی مجلسیں جا بجا منعقد ہوں گی" (١٩١٣ء، مضامین ابوالکلام، ٥٣)
شاعری
- جہاں جا بجا ہے راگ اور رنگ
جسے دیکھو تو اب ہے عیش آینگ - وہ تجھ میں چھپ رہا تو ڈھونڈھتا ہے جا بجا اس کو
غلط فہمید چھوڑ اور تل کی اوجھل دیکھ پربت ہے - جا بجا ہے موے ابرو سے نمایاں جلد صاف
جلوہ گر تیغ صفا ہانی میں ہیں جوہر سفید - نشاں جا بجا میل و فرسخ کے برپا
سررہ کوئیں اور سرائیں سہیا - محلاں جا بجا خوش طرح سارے
عجب کچ زیب و زینت سوں سنوارے - نہیں کوئی سامنے تو کیا ہے جہاں ترا صید ہو چکا ہے
کہ دام گستر وہ جا بجا ہے شمیم گیسوئے عنبریں کا - مرقد پہ میرے طرہ شمشاد کی طرح
پھوٹے گی نخل شمع میں بھی جا بجا گرہ - نہ کر مذکور تو اس غنچہ لب کا جا بجا اے دل
مبادا ایسی باتوں میں کہیں کچھ بو نکل آئے - جان دے بیت الخلا میں غیر سگ سیرت کو جا
خوب گو اچھلے کا رسوا جا بجا ہو جائے گا - لنڈھک جائے بہت سی مے‘ بہت سے جام گر جائیں
بڑے ہوں جا بجا شیشوں کے ٹکڑے اور زمیں تر ہو