جواب
{ جَواب }
تفصیلات
iثلاثی مجرد کے باب سے مصدر ہے۔ ١٥٧٢ء، میں "کلمۃ الحقائق" میں استعمال کیا گیا۔ اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔
[""]
اسم
اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : جَوابات[جَوا + بات]
- جمع غیر ندائی : جَوابوں[جوا + بوں (و مجہول)]
جواب کے معنی
اظہار آرزو پر سننی پڑیں ہزاروں اک سوال تھا لیکن پائے جواب کیا کیا (١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٥٩)
نہ تو آیا جواب نامہ نہ موت زیست سے بھی مجھے جواب نہیں
"اگر کسی عدد کو صفر سے ضرب لگائیں تو کیا جواب آئے گا"۔ (١٩٧٨ء، حساب، ١، ٥١)
"وہ ایک کوٹھڑی اس کے جواب میں برآمدہ کے مشرقی کونے پر" (١٩٤٥ء، حکیم الامت، ١٨)
سودا و میر و ذوق ہوں یا سوز و درد ہوں اس کا کہاں جواب ہے ان میں سے جو گیا
فریاد سن کے دیں تو برا یا بھلا جواب سنتے نہیں سوال وہ ہے اس کا کیا جواب (١٨٤٦ء، دیوان مہر، ٧٥)
شوق سے لکھیں میرے عصیاں فرشتے ایک رحمت اس کی ہے اس سارے دفتر کا جواب
"غصے کی حالت میں طبیعی جوابات نے حیوان کو حملے کے لیے موزوں کر دیا"۔ (١٩٤٠ء، مکالمات سائنس، ١٩١)
"اگر وہ اس کے بجا لانے میں ڈھیل یا سستی روا رکھے بے شک مقام جواب اور محل عتاب میں پڑے"۔ (١٨٤٤ء، ترجمہ گلستان، ٨)
"ٹیپ کے مصرعوں کو جو دہراتے ہیں وہ جواب کہلاتے ہیں"۔ (١٨٥٤ء، خطبات گارساں دتاسی، ١٤٥)
"جس وقت کہ خط رسید کا اس کے پاس آیا جس شخص نے روپیہ جمع کیا تھا وہ ساہوکار اس رسید کے خط کو اس کے پاس پہونچا دیتا ہے، ساہوکار کی اصطلاح میں اس کو جواب کہتے ہیں"۔ (١٨٤٥ء، مجمع الفنون (ترجمہ)، ١٤٥)
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں (١٨٦٩ء، دیوان، غالب، ١٨٨)
مرکبات
جواب دار, جواب دہی, جواب داری, جواب دعوی, جواب نویس, جواب و سواب
انگلش
["Answer","reply","response (to a letter","writing","saying","or question); report","rejoinder; anything answering to another","counterpart","double","pair; return","reward","compensation; discharge","dismissal","refusal (of an offer of marriage)"]