جھٹکا
{ جَھٹ + کا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم |جھٹک| کے ساتھ |ا| بطور لاحقہ نسبت لگانے سے |جھٹکا| بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٩٧ء میں "دیوان ہاشمی" میں مستعمل ملتا ہے۔
["جَھٹَک "," جَھٹْکا"]
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : جَھٹْکے[جَھٹ + کے]
- جمع : جَھٹْکے[جَھٹ + کے]
- جمع غیر ندائی : جَھٹْکوں[جَھٹ + کوں (و مجہول)]
جھٹکا کے معنی
اچھے اچھوں کو بھٹکا دیکھا بھیڑ میں کھاتے جھٹکا دیکھا (١٩٢١ء، کلیات اکبر، ٢٦٧:١)
"اس نبض میں تشنجی حرکات کی طرح بار بار جھٹکے محسوس ہوتے ہیں۔" (١٩٣٦ء، رسالہ نبض، ٥٤)
شانہ گیسو میں جو الجھا تو وہ مجھ سے الجھے پڑ گئے زلف میں بل ہاتھ کو جھٹکا پہنچا (١٩٣٣ء، صوت تغزل، ٤٢)
"ایسی صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سن میں اس جھٹکے کو سہ بھی سکیں گی یا نہیں۔" (١٩٤٧ء، مضامین فرحت، ٩:٧)
جو سانس ہے اس میں جھٹکا ہے سینے میں اب دم اٹکا ہے بس ایک نگہ بس ایک نظر مرے احمد پیارے میں صدقے (١٨٧٣ء، محامد خاتم النبیین، ١٤٠)
"الف کا عقدہ کھل گیا کہ ہمیشہ ساکن رہتا ہے اور بغیر جھٹکا دیے ادا ہوتا ہے۔" (١٨٧٣ء، عقل و شعور، ٤٣)
"دادا جان انگریزی تو کیا خاک سمجھتے ہاں ان لوگوں کے چہرے اور الفاظ کے جھٹکے سے جان گئے کہ مجھ سے نکل جانے کو کہتے ہیں۔" (١٩٤٧ء، مضامین فرحت، ٦٦:٣)
"اس تنخواہ میں وہ قطعاً سواری نہیں رکھ سکتے اور جھٹکے میں پھرنا وہاں پیدل پھرنے سے بھی زیادہ ذلیل سمجھا جاتا ہے۔" (١٩٠٧ء، مکتوبات حالی، ٧٧:١)
یا باہم پیار کے جلسے تھے، دستور محبت قائم تھا یا بحث میں اردو ہندی ہے یا قربانی یا جھٹکا ہے (١٩٢٤ء، بانگ درا، ٣٢٨)
"تمام قصبہ میں جھٹکے کی غالباً صرف یہی ایک دوکان تھی۔" (١٩٥٧ء، ناقابل فراموش، ٤٥٩)
"برقک بھی ایک جسم سیال ہے کہ جس کو ہندی میں جھٹکا اور بجلی کہتے ہیں۔" (١٨٥٦ء، مجموعہ فوائد العبیان، ١٢٢)
"زلزلہ کا جھٹکا ایسا شدید تھا کہ انطاکیہ کا پہاڑ پھٹ کر دریا میں گر گیا۔" (١٩٧٥ء، تاریخ اسلام، ٣، ١٤٢)
"الفاظ کی جگہ علامتیں استعمال کی گئیں. خط فاصل، نقطے، جھٹکے، نویئے، قوسیں وغیرہ۔" (١٩٦١ء، ہماری موسیقی، ٢٠٠)
انگلش
["A jerk","pull","wrench; a twitch; a stitch; a gust (of wind)"]