حاشیہ کے معنی
حاشیہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ حا + شِیَہ }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٧١ء کو "ہشت بہشت" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["حاضر باش","حالی موالی","شرح کی شرح","شرح یا یادداشت جو کتاب کے متن پر لکھی جائے","فٹ نوٹ","لکھے ہوئے ورق کا کنارہ","وہ بیل بوٹے جو رومالوں چادروں وغیرہ کے کناروں پر بناتے ہیں","کام جو وردی کے سامنے بنا ہوتا ہے","کتاب یا ورق کا چاروں طرف کا کنارہ","کم درجے کے لوگ"]
حاشا حاشِیَہ
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : حاشِیے[حا + شِیے]
- جمع : حاشِیے[حا + شِیے]
- جمع غیر ندائی : حاشِیوں[حا + شِیوں (واؤ مجہول)]
حاشیہ کے معنی
"مہر کے حاشیے پر گزشتہ سلاطین مغلیہ کے نام تحریر ہیں" (١٩٤٦ء، شیرانی، مقالات، ١٣)
"انیلا نے دیکھا.کتاب کے متن اور حاشیے میں بڑا فرق ہے" (١٩٤٥ء، شاید کہ بہار آئی، ١١٦)
"ایک دفعہ چادر اوڑھ کر نماز ادا فرمائی، جس میں دونوں طرف حاشیے تھے" (١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٥٥:٢)
صحن کے دوسرے طرف. حاشیے اور ستونوں کے نقش بنے ہوئے تھے" (١٩٣٢ء، اسلامی فن تعمیر، ٢٦)
بیٹھے رہے کنارے ہی اس گل کے فرش پر اس بوستان کے واسطے ہم حاشیے ہوئے (١٨٦٢ء، کلیات منیر، ٤٢١:٢)
"حضرت عمر نے کہاں کہ مجھے یقین کامل ہے کہ یہ منافقوں کا حاشیہ ہے اور ام المومنین اس الزام سے پاک ہیں" (١٩١٨ء، امت کی مائیں، ٧٥)
"عدد وہ چیز ہے کہ اپنے مجموعہ حاشیین کا نصف ہو چنانچہ پانچ کہ اس کا عاشیہ اول چار ہے اور حاشیہ دوم چھپے" (١٨٥٦ء، مجموعہ فوائدالصبیان، ١١)
"اگر آپکا ہوٹل جنت کے مرکز کے بجائے جنت کے حاشیے پر واقع ہو تو آپ کو اعتراض تو نہیں ہو گا" (١٩٧٥ء، بسلامت روی، ٥٣)
حاشیہ کے جملے اور مرکبات
حاشیہ آرائی, حاشیہ بردار
حاشیہ english meaning
sidemarginborderselvagehem; facings (of military uniform); marginal note or notes; men of inferior rankattendantsretinuetroops
شاعری
- وحشت زدوں کو نامہ لکھوں ہوں نہ کس طرح
مجنوں کو اس کے حاشیہ پر میں دُعا لکھوں - فرق
کہا اُس نے دیکھو‘
’’اگر یہ محبت ہے‘ جس کے دو شالے
میں لپٹے ہوئے ہم کئی منزلوں سے گزر آئے ہیں!
دھنک موسموں کے حوالے ہمارے بدن پہ لکھے ہیں!
کئی ذائقے ہیں‘
جو ہونٹوں سے چل کر لہُو کی روانی میں گُھل مِل گئے ہیں!
تو پھر اُس تعلق کو کیا نام دیں گے؟
جو جسموں کی تیز اور اندھی صدا پر رگوں میں مچلتا ہے
پَوروں میں جلتا ہے
اور ایک آتش فشاں کی طرح
اپنی حِدّت میں سب کچھ بہاتا ہُوا… سنسناتا ہُوا
راستوں میں فقط کُچھ نشاں چھوڑ جاتا ہے
(جن کو کوئی یاد رکھتا نہیں)
تو کیا یہ سبھی کچھ‘
اُنہی چند آتش مزاج اور بے نام لمحوں کا اک کھیل ہے؟
جو اَزل سے مری اور تری خواہشوں کا
انوکھا سا بندھن ہے… ایک ایسا بندھن
کہ جس میں نہ رسّی نہ زنجیر کوئی‘
مگر اِک گِرہ ہے‘
فقط اِک گِرہ ہے کہ لگتی ہے اور پھر
گِرہ در گِرہ یہ لہو کے خَلیّوں کو یُوں باندھتی ہے
کہ اَرض و سَما میں کشش کے تعلق کے جتنے مظاہر
نہاں اور عیاں ہیں‘
غلاموں کی صورت قطاروں میں آتے ہیں
نظریں جُھکائے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں
اور اپنے رستوں پہ جاتے نہیں
بات کرتے نہیں‘
سر اُٹھاتے نہیں…‘‘
کہا میں نے‘ جاناں!
’’یہ سب کُچھ بجا ہے
ہمارے تعلق کے ہر راستے میں
بدن سنگِ منزل کی صورت کھڑا ہے!
ہوس اور محبت کا لہجہ ہے یکساں
کہ دونوں طرف سے بدن بولتا ہے!
بظاہر زمان و مکاں کے سفر میں
بدن ابتدا ہے‘ بدن انتہا ہے
مگر اس کے ہوتے… سبھی کُچھ کے ہوتے
کہیں بیچ میں وہ جو اِک فاصلہ ہے!
وہ کیا ہے!
مری جان‘ دیکھو
یہ موہوم سا فاصلہ ہی حقیقت میں
ساری کہانی کا اصلی سِرا ہے
(بدن تو فقط لوح کا حاشیہ ہے)
بدن کی حقیقت‘ محبت کے قصے کا صرف ایک حصہ ہے
اور اُس سے آگے
محبت میں جو کچھ ہے اُس کو سمجھنا
بدن کے تصّور سے ہی ماورا ہے
یہ اِک کیفیت ہے
جسے نام دینا تو ممکن نہیں ہے‘ سمجھنے کی خاطر بس اتنا سمجھ لو
زمیں زادگاں کے مقدر کا جب فیصلہ ہوگیا تھا
تو اپنے تحفظ‘ تشخص کی خاطر
ہر اک ذات کو ایک تالہ ملا تھا
وہ مخصوص تالہ‘ جو اک خاص نمبر پہ کُھلتا ہے لیکن
کسی اور نمبر سے ملتا نہیں
تجھے اور مجھے بھی یہ تالے ملے تھے
مگر فرق اتنا ہے دونوں کے کُھلنے کے نمبر وہی ہیں
اور ان نمبروں پہ ہمارے سوا
تیسرا کوئی بھی قفل کُھلتا نہیں
تری اور مری بات کے درمیاں
بس یہی فرق ہے!
ہوس اور محبت میں اے جانِ جاں
بس یہی فرق ہے!! - لکھتے بیاضِ وقت پہ ہم کیا تاثرات
سب کچھ تھا درج اور کوئی حاشیہ نہ تھا - جم اس کے حاشیہ بردار حبشی و رومی
جم اس کے حلقہ بگوش ازبکی و ترک مغل - رخ نے قرآں کا سبق پہلے دیا عالم کو
بے سخن حاشیہ داں خط نے کیا عالم کو - بہر کیف اس کو حاکم تک وہ لائے
گواہ حاشیہ بھی ساتھ آئے - رخ جو ایماں ہے تو اک جزو ہے یہ ایماں کا
ہے نیا حاشیہ یہ منہیہ ہے قرآں کا
محاورات
- حاشیہ چڑھانا
- حاشیہ لگانا