خدا ساز کے معنی

خدا ساز کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ خُدا + ساز }

تفصیلات

iفارسی زبان سے ماخوذ اسم |خدا| کے ساتھ فارسی مصدر |ساختن| سے مشتق صیغہ امر |ساز| بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت اور متعلق فعل مستعمل ہے۔ ١٧٨٠ء میں "کلیات سودا" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["خدا ساختہ","خدا کا بنایا ہوا","ساختۂ خدا"]

اسم

صفت ذاتی ( واحد )

اقسام اسم

  • جمع غیر ندائی : خُدا سازوں[خُدا + سا + زوں (و مجہول)]

خدا ساز کے معنی

١ - خدا کا بنایا ہوا، قدرت کی طرف سے، قدرتی، خدائی، غیبی۔

 یہ اتفاق تھا کہ خدا ساز بات تھی مجھکو تو اس کے وصل کا ہرگز گماں نہ تھا (١٩٥٠ء، ترانہ وحشت، ٢٣٤)

٢ - جس کا سان گمان نہ ہو، اتفاقی، اتفاقیہ، احیاناً۔

 ان سے ملنا بھی خدا ساز ہوا ہے اپنا کامیابی مری شرمندہ تدبیر نہیں (١٩٢٣ء، کلیات حسرت موہانی، ٢١٩)

٣ - بت بنانے والا۔

 خدا ساز تھا آذر بت تراش ہم اپنے تئیں آدمی تو بنائیں (١٨١٠ء، کلیات میر، ٤٦٨)

خدا ساز کے مترادف

قدرتی, فطری

اتفاقی, فطری, قدرتی

شاعری

  • خدا ساز اے صنم ہے وہ تری آواز میں کھٹکا
    ادھر میں وجد میں آیا ادھر مطرب نے سرپٹکا
  • مغ نے دی پگڑی پہ زاہد کے مجھے قرض شراب
    کام سودا ہی کا ہوتا ہے خدا ساز درست
  • میں اور حظ وصل خدا ساز بات ہے
    جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں
  • دھوکے میں ہم کنار وہ طنار ہو گیا
    یہ بھی اک اتفاق خدا ساز ہو گیا
  • خدا ساز تھا آذت بت تراش
    ہم اپنے تئیں آدمی تو بنائیں
  • تکیہ جو فضل خدا ساز یہ کر لیتا ہے
    وہ سبک رو کوئی گڑ پنکھ کے پر لیتا ہے
  • ہے خدا ساز آپ کا یہ ملاپ
    اے ذوی الا حتشام کون ہیں آپ؟
  • رند پھیلائے ہیں چُلّو کو تکلف کیسا
    ساقیا ڈھال بھی دے جام خدا ساز آیا