درانداز کے معنی
درانداز کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دَر + اَن + داز }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ اسم |در| کے ساتھ فارسی مصدر |انداختن| سے صیغہ امر |انداز| لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٧٧٢ء سے "دیوان فغان" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بدگوئی کرنے والا","خلل انداز","دخل انداز","دست انداز","دو آدمیوں میں لڑائی کرادینے والا","غیبت کرنے والا","فتنہ پرداز","فتنہ پرور","مداخلت کار"]
اسم
صفت ذاتی ( واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : دَراَنْدازوں[دَر + اَن + دا + زوں (و مجہول)]
درانداز کے معنی
"در اندازوں اور حاسدوں نے چند فقرے ایسے جڑ دیئے کہ چندے بے لطفی رہی۔" (١٩٥٨ء، شاد کی کہانی، شاد کی زبانی، ٥٥)
"اہل کوفہ میں سے دو شخص امیر المومنین کے پاس مدینے گئے اور ان کے سامنے ولید پر شراب خواری کا الزام لگایا۔ پہلے تو حضرت عثمانؓ نے ان لوگوں کا اظہار قلمبند کرنے سے انکار کیا، لیکن حضرت علیؓ درانداز ہوئے۔" (١٩٣٥ء، عبرت نامہ اندلس (ترجمہ)، ١٠٧)
المدد حیرتِ دیدار کہ میں ڈرتا ہوں آڑ پلکوں کی نہ ہو جائے درانداز کہیں (١٩١٩ء، لذتِ درد، ١٣)