دل لگی کے معنی
دل لگی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دِل + لَگی }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ اسم |دِل| کے ساتھ ہندی سے ماخوذ |لگنا| مصدر سے حالیہ تمام |لگی| لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٨٣٨ء "گلزارِ نسیم" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["آسان بات","خوش دلی","خوش طبعی","خوش مزاجی","دل بہلاؤ","معمولی بات","کرنا، نکالنا، ہونا کے ساتھ"]
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث )
اقسام اسم
- جمع : دِل لَگْیاں[دِل + لَگ + یاں]
دل لگی کے معنی
عیاں ہے سازِ ظرافت سے سوزِ دل میرا نہاں ہے دل کی لگی کے پردے میں (١٩٨٢ء، ط ظ، ٨)
دل لگانا کوئی تقصیر نہیں دل لگی لائق تعزیر نہیں (١٩٨٦ء، مثنوی امید و بیم، ٧)
"صاف باطن ہونا منہیات و معصیات سے احتراز کرنا. دل لگی نہیں ہے۔" (١٨٨٠ء، فسانہ آزاد، ٢٤١:١)
جُوا ان کی دن رات کی دل لگی تھی شراب ان کی گھٹی میں گویا پڑی تھی (١٨٧٩ء، مسدس حالی، ١٤)
دل لگی کے مترادف
لہو و لعب
چاہ, چہل, چُہل, دلچسپی, دوستی, شغل, ظرافت, عشق, لطف, لگاؤ, لگن, محبت, مذاق, مزاح, مسخرگی, مشغلہ, ہنسی
دل لگی english meaning
amusementjestjoke
شاعری
- مرتے ہی سُنا اُن کو جنھیں دل لگی کچھ تھی
اچھا بھی ہوا کوئی اس آزار سے ابتک - کہ تو پالا کر اپنی اس بھانجی کو
حفاظت سے رکھا کر اس دل لگی کو - دل لگی میں نامہ اعمال سب اڑ جائے گا
مل گئی پرگت فرشتوں سے جو آدم زاد کی - خیر ہے کیوں مرے رونے کی ہنسی ہوتی ہے
دل لگی کیا ہے لگی دل کی بری ہوتی ہے - نہ دل لگی نہ کوئی چیز مجھ کو بھاتی ہے
کلیجہ ٹوٹے ہے اور چھاتی امڈی آتی ہے - کھانا بے دل لگی نہ پچتا تھا
میلا ٹھیلا نہ کوئی بچتا تھا - دل کا لگاؤ غیر سےچکھ دل لگی نہیں
دم لوِ تمہیں بھی اس کے مزے آتے جاتے ہیں - دل لگی اپنے ترے ذکر سے کس رات نہیں تھی
شراب اُن کی گُھتی میں گویا پڑی تھی - ہمارے زخم دل نے دل لگی اچھی نکالی ہے
چھپائے سے تو چھپ جانا مگر ناسور ہو جانا - نہ رہنے پائے دیواروں میں روزن شکر ہے ورنہ
تمھیں تو دل لگی ہوتی غریبوں پر ستم ہوتا
محاورات
- اچھی دل لگی کی
- دل لگی کرنا
- محبت دل لگی نہیں