دلبر کے معنی
دلبر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دِل + بَر }
تفصیلات
iفارسی زبان سے اسم جامد |دل| کے ساتھ فارسی مصدر |بردن| سے فعل امر |بر| لگا کر مرکب بنایا گیا ہے۔ اردو میں ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔, m["دل ربا","دل ستاں","دل لے جانے والا","من موہن"]
اسم
صفت ذاتی
اقسام اسم
- جمع ندائی : دِلْبَرو[دِل + بَرو (واؤ مجہول)]
- جمع غیر ندائی : دِلْبَروں[دِل + بَروں (واؤ مجہول)]
دلبر کے معنی
١ - دل لینے والا، دل ربا، پیارا، محبوب، معشوق۔
رنج سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو تھوڑی سی خاک کوچۂ دلبر ہی لے چلیں (١٩٧٢ء، دیوان، ١٣٢)
دلبر english meaning
Heart-ravishingcaptivatingattractivecharminglovelybeloved; heart - ravishera lovely persona sweat heart.picketing [E]
شاعری
- عشق کیا ہو ہم نے کہیں تو عشق ہمارا جی مارے
تو نہیں نکورو دلبر اپنا ہم سے ہوا ہے بدتر آج - آنکھوں کی یہ مردم داری دل کو کسو دلبر سے ہے
طرز نگہ طراری ساری میر تمہیں پہچانا ہے - آبرو جائے احبا ہوں جدا گھر چھوٹے
سب گوارا ہے مجھے پر نہ وہ دلبر چھوٹے - دکھن ہور ہند کے دلبر ھمن سوں بے حجاب آچھے
کہ مکھڑے چاند سے پر جن کے خط کے پیچ تاب آچھے - رحم کچھ عیب ہے جس سے کہ خفا ہوتے ہو
یہ خوشی ہے جو کہیں دلبر آزار پسند - میں دلبر حیدر ہوں خبر ہے کہ نہیں ہے
میں آل پیمبر ہوں خبر ہے کہ نہیں ہے - دلبر ہیں ادائیں بھی دلکش ہیں جفائیں بھی
اک آن ستمگر میں ہر آن نکلتی ہے - مضطرب پیاس سے تھا دلبر سلطان عرب آنکھ
تر ہوئی آنکھ دیکھے جو وہ سو کھے ہوئے لب - کب تلک یہ دل صد پارہ نظر میں رکھیے
اس پر آنکھیں ہی سیے رہتے ہیں دلبر کتنے - نہیں موتی پروئے بال بال اعضاے دلبر میں
وہ ہے عالی گہر مارا ہے غوطہ آب گوہر میں
محاورات
- خوشترآں باشد کہ سر دلبراں گفتہ آید در حدیث دیگراں
- سخن شناس نہ ای دلبرا خطا اینجاست
- سخن شناس نہ دلبرا خطا اینجاست
- شبد بھید کو لکھا نہیں تو کیا ہو پشتک چینہمہ۔ جو دل دلبر سے ملا نہیں تو کیا ہو کر وا کو پین لئے