دکھی کے معنی
دکھی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دُکھی }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم |دکھ| کے ساتھ فارسی قاعدے کے تحت |ی| بطور لاحقۂ نسبت لگائی گئی ہے اردو میں ١٦١١ء کو قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔, m["آفت رسیدہ","درد رسیدہ","رنج رسیدہ","مصیبت زدہ"]
دُکھ دُکھی
اسم
صفت نسبتی
دکھی کے معنی
عمر جس کا من ہو دکھی اور اداس اسے بھائیں کیسے یہ اجلے لباس (١٩٧٨ء)
عجب کچھ اتھا جگ میں جاکا صفا دکھیاں کوں زمانے کے دارالشفا (١٦٦٥ء، علی نامہ، ٤٩)
دکھی کے مترادف
روگی[1], علیل, سوختہ, زحمتی
بیمار, پریشان, دردمند, رنجیدہ, روگی, سقیم, علیل, مریض, مغموم, ملول, نالاں
دکھی english meaning
Painedafflictedin pain or distressdistresssufferedillsick; affectedgrievedsorrowfulsad; unfortunatepoorindigentmiserablewretched; afflicted onesuffererdistressed personunfortunate onepoor wretch.anus
شاعری
- (دلدار بھٹی کے لیے ایک نظم)
کِس کا ہمدرد نہ تھا‘ دوست نہ تھا‘ یار نہ تھا
وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا
قہقہے بانٹتا پھرتا تھا گلی کوچوں میں
اپنی باتوں سے سبھی درد بُھلا دیتا تھا
اُس کی جیبوں میں بھرے رہتے تھے سکّے‘ غم کے
پھر بھی ہر بزم کو گُلزار بنا دیتا تھا
ہر دُکھی دل کی تڑپ
اُس کی آنکھوں کی لہو رنگ فضا میں گُھل کر
اُس کی راتوں میں سُلگ اُٹھتی تھی
میری اور اُس کی رفاقت کا سفر
ایسے گُزرا ہے کہ اب سوچتا ہوں
یہ جو پچیس برس
آرزو رنگ ستاروں کی طرح لگتے تھے
کیسے آنکھوں میں اُتر آئے ہیں آنسو بن کر!
اُس کو روکے گی کسی قبر کی مٹی کیسے!
وہ تو منظر میں بکھر جاتا تھا خُوشبو بن کر!
اُس کا سینہ تھا مگر پیار کا دریا کوئی
ہر دکھی روح کو سیراب کیے جاتا تھا
نام کا اپنے بھرم اُس نے کچھ ایسے رکھا
دلِ احباب کو مہتاب کیے جاتا تھا
کوئی پھل دار شجر ہو سرِ راہے‘ جیسے
کسی بدلے‘ کسی نسبت کا طلبگار نہ تھا
اپنی نیکی کی مسّرت تھی‘ اثاثہ اُس کا
اُس کو کچھ اہلِ تجارت سے سروکار نہ تھا
کس کا ہمدرد نہ تھا‘ دوست نہ تھا‘ یار نہ تھا
وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا - عجب خوش وقت کے میانے دکھی اک بالکی چنچل
سوہاوے نوجوانی میں سو چودا سال کی چنچل - تم تو ہر بات میں ہو دل کو دکھاتے میرے
کیا ہوا میں نے بھی گر دکھی کہی تھوڑی سی - کرے گا اگر یاد وومنج دکھی کوں
کروں یاد اگر کس کوں استغفراللہ - عمر جس کا من ہو دکھی اور اداس
اسے بھائیں کیسے یہ اجلے لباس - دکھی کوی اس دور میں آج کس
نہ کہہ دُو کھ اپنا دکھیا باج - دکھی کوئ تو اس دور میں آج کس
نہ کہہ دوکھ اپنا دُکھیا باج کس - میں اے لالا ، دکھی فالا، ہنگام آلا ہے دُھپکالا
ہے متوالا توں ہی پیالا ہو خوش حالا نہ کر چالا
محاورات
- تریا پرکھ بن ہے دکھی جیسے ان بن دیہ۔ جلے بلے ہے جیوڑا جوں کھیتی بن مینہ
- جنم کے دکھیا نام (چین) سدا سکھ
- جنم کے دکھیا کرم کے ہین تنکا ویو تلنگیا کین
- جورو کا دکھیلا بیچ کر تندوری روٹی کھائی ہے
- جی دکھی ہوجانا یا ہونا
- جی دکھی ہونا
- دکھیا دکھ رووے سکھیا جیب (کمر) ٹووے
- دکھیا رووے سکھیا سووے
- ساجن دکھیا کر گئے اور سکھ کو لے گئے ساتھ اب دکھ دے نیارے بھئے بہر نہ پوچھی بات
- سادھو دکھیا سب سنسار، جو سکھیا سو رام آدھار