دھبا کے معنی

دھبا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ دَھب + با }

تفصیلات

iپراکرت زبان کے لفظ |تھپہ| سے ماخوذ |دھبا| اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٨٦٥ء کو "دیوانِ نسیم دہلوی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["بیجا الزام","رنگدار نشان"]

تھیہ دَھبّا

اسم

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )

اقسام اسم

  • واحد غیر ندائی : دَھبّے[دَھب + بے]
  • جمع : دَھبّے[دھب + بے]
  • جمع غیر ندائی : دَھبّوں[دَھب + بوں (و مجہول)]

دھبا کے معنی

١ - نشان، ٹیکا، داغ۔

"رگوں میں صدمات کی تمازت سے سرخ آنکھوں کی پتلیوں کے سیاہ دھبے سکڑ رہے ہیں۔" (١٩٨١ء، اکیلے سفر کا اکیلا مسافر، ٢٧)

٢ - عیب، کلنک؛ بیجا الزام۔

 جرم ناکردہ کا الزام سر آنکھوں پہ مگر اپنے دَامن کے یہ دھبے تو چھپاو پہلے (١٩٨١ء، مضراب و رباب، ٢٣٤)

دھبا english meaning

blotblotchestablishfoundset up

شاعری

  • عبث اب دھو رہا ہے خون عاشق اس سے اے قاتل
    یہ دھبا مٹ نہیں سکتا ترے خنجر کے دامن سے
  • نہ چیں اے ترک بے رحم ابروے خم دار میں آئے
    لگا خامی کا دھبا بل جہاں تلوار میں آئے
  • نہ چھوٹے گا چھڑا کر اس کو اے قاتل نہ بن لڑکا
    وفاداروں کے خوں کا داغ کیا دھبا ہے کیچڑ کا
  • دھلوایا آبِ کوثر و تسنیم سے لباس
    پر کیا کروں کہ راب کا دھبا لگا رہا

محاورات

  • دامن ‌پر ‌دھبا ‌لگانا
  • دامن ‌پر ‌دھبا ‌لگنا
  • دامن پر دھبا رہنا
  • دھبا لگنا
  • ذات میں بٹا (دھبا) لگانا
  • نام کو بٹا یا دھبا لگانا
  • کاجل ‌کی ‌کوٹھڑی ‌میں ‌(دھبے ‌کا ‌ڈر) ‌جو ‌جائے ‌گا ‌اسے ‌(ٹیکا) ‌دھبا ‌ہی ‌لگے ‌گا

Related Words of "دھبا":