دہرا کے معنی
دہرا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دُہ (ضمہ د مجہول) + را }
تفصیلات
iپراکرت زبان کے لفظ |دوہراو| سے ماخوذ ہے۔ عربی رسم الخط میں مستعمل ہوا اردو میں سب سے پہلے ١٧٩١ء کو حسرت (جعفر علی) کی "طوطی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["پتنگ بازی کا ایک پیچ (نکالنا۔ نکلنا کے ساتھ)","جھکا ہوا","جینیوں کا مندر","حد گاؤں یا کھیت کی","دو تہ","دو تہ کا","دو سے","زمین کا محور","سپاری کا ٹکڑا","لوہے کی سلاخ جس پر پہیا پھرتا ہے"]
اسم
صفت مقداری ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جنسِ مخالف : دُہْری[دُہ + ری]
- واحد غیر ندائی : دُہْرے[دُہ + رے]
- جمع : دُہْرے[دُہ + رے]
دہرا کے معنی
"وہ جس نے دوسروں کے سر پر تاج شاہی رکھ دیے ہماری دنیا میں اتنا بھی آرام نہ پاسکا کہ کمبل اس کے واسطے دہرا ہو جائے۔" (١٩٣١ء، سیدہ کالال، ٦٤)
دہرے پیکاں ہیں تیر قاتل میں جگہ و دل کا ہے خدا حافظ (١٩١٥ء، جان سخن، ٧٧)
"بچوں کی تربیت میں اس کو اپنے شہر اور شوہر کے شہر کے دہرے تجربے مدد دیتے ہیں۔" (١٩٤١ء، اولاد کی شادی، ٢٥)
"آنکھیں نکلی پڑتی تھیں، موا دہرا ہوا جاتا تھا۔" (١٩٦٠ء، ماہ نو کراچی، مئی، ٥٠)
دونی لذت پاتا ہوں میں دہرا لطف اٹھاتا ہوں میں قندِ مکرر سے بڑھ کر ہے مجھ کو ذکر مکرر تیرا (١٩٢٧ء، اعجازِ نوح، ٢)
"خان صاحب . کبھی کبھی . طالب علموں کے کمروں میں بھی آجاتے اور اپنے اقوال سے مستفید فرماتے اور صوفیانہ دہرے وغیرہ سناتے۔" (١٩٦٠ء، سرسید احمد خان، ١٠)
"پیچ لڑانا، دہرا نکالنا، رخ دینا غرض ہر حرکت بجائے خود ایک غرض شرعی پر مبنی ہے" (١٩٢٤ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ٩، ٥:٤٩)
دہرا english meaning
doubletwo-foldtwice as much; reduplicated; compoundsince thenthencethereafterurge a horse
شاعری
- ایک نے جھانجھ کا لیا مہرا
اک جھنجھوٹی میں بول اٹھی دہرا - ایک نے جانجھ کا لیا مہرا
ایک جھنجھوئی میں بول اٹھی دہرا
محاورات
- بات دہرانا
- بدن دہرا ہونا