دیکھنا
{ دیکھ (ی مجہول) + نا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ مصدر ہے۔ اردو میں بطور فعل متعدی، فعل لازم اور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٣٢٤ء سے "امیر خسرو (اردو، اکتوبر، ١٩٥٠)" میں مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
فعل لازم, فعل متعدی, متعلق فعل
دیکھنا کے معنی
[" الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا (١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٠٥)"," تجھے بھی کسی دن سمجھنا ہے ظالم ابھی اور اے چشم نم دیکھتے ہیں (١٩٣٤ء، شعلۂ طور، ٣٦)"," لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور (١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٧٠)"," غیروں پر کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا (١٨٥١ء، مومن، کلیات، ٢٨)","\"وہ میں جانتا ہوں دس بارہ ہزار کا جہیز بھی ہو گا . لیکن اس کے بعد بھی کچھ دیکھنا ہے۔\" (١٩٢٩ء، وداعِ خاتون، ٥)"," جو دیکھا کہ ہے کہ بدہ کا اس میں قیام مگر اس نے پایا نہ اچھا مقام (١٩٠٢ء، سیرالافلاک، ٣٤)","\"سمر کانت نے ہاتھ میں زنجیر لے کر دیکھا اور تولتے ہوئے بولے۔\" (١٩٣٢ء، میدان عمل، ٦٣)"]
[" یہ کیا جن کو دیکھنا چاہیں اور نہ دیکھیں ان کو یہ کیا بھول نہ پائیں، شب آداب ہمارے (١٩٨١ء، ملامتوں کے درمیان، ٥٠)"," دیکھا ہے جو مرتبہ شہیدوں کا ترے تجھ پر مرنے چلے ہیں دیکھا دیکھی (١٩٤٥ء، روح کائنات، ٤٩)","\"پھر . ابراہیم سے کہا تو نے کیا دیکھ کے ایسی بات کی۔\" (١٨٢٢ء، موسٰی کی توریت مقدس، ٦٥)"," یوں تو کوئی نظر آتا ہی نہیں تیرے سوا نگہ شوق نے لیکن تجھے دیکھا بھی کہاں (١٩٣٨ء، مشعل، ٣٠)","\"دیکھتی ہوں کہ کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔\" (١٩٠٧ء، سی پارۂ دل، ١٤٠)","\"رسول شاہ دیکھنے والے نعمت اللہ شاہ کے اور وہ دیکھنے والے شاہ داؤد مصری کے۔\" (١٨٤٦ء، تذکرۂ اہل دہلی، ٣٩)","\"مل نے، جیسا کہ ہم دیکھیں گے، اس کا ارتکاب یقیناً کیا ہے۔ (١٩٦٣ء، اصول اخلاقیات، ٥٤)","\"دادا جی چاہتے ہیں کہ وہ کاروبار دیکھیں۔\" (١٩٣٢ء، میدان عمل، ٢٦)","\"بہ تعمیل ارشاد غزل دیکھ لینے میں مجھے کیا عذر ہو سکتا ہے لیکن اگر دیکھنا اصلاح و مشورے کے مفہوم میں آپ نے استعمال کیا ہے تو میری معذرت قبول فرمائیے۔\" (١٩٢٤ء، مکتوبات نیاز، ٨)"," قدر کرنی چاہیے اس صاحب تالیف کی دیکھ کر اس کو نہ ہرگز سیم و زر کو دیکھنا (١٩٤٥ء، مسائل دہلوی، ریویوز، ٤)"," زندگی میں یہ حسیں کس کی خبر لیتے ہیں رحم آیا تو دم باز پسیں دیکھ لیا (١٩٢٥ء، دیوان قمر، ١٥:٢)"," کچھ ایسی نہ کہنا کہ بگڑیں وہ اور خدا کے لیے نامہ بر دیکھنا (١٨٢٧ء، نظام، کلیات، ١٤)","\"جس کے گمان پر بھولی ہوسی ہو اسے بھی دیکھوں گا اور تمہیں بھی۔\" (١٩٣٦ء، پریم چند، پریم پچیسی، ٦٤:١)","\"کتاب \"احیا العلوم\". کا ترجمہ میں آج کل دیکھ رہی ہوں۔\" (١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٥٠)","\"ذرا پڑھ تو سہی اب دیکھوں کیا لکھا ہے۔\" (١٩١٨ء، انگوٹھی کا راز، ٦)"," مرگئے لاکھوں ہی بیمار تپ فرقت سے ہم نے بس تجھ کو بھی اے عیسٰی دوراں دیکھا (١٩٧٠ء، الماس درخشاں، ٢٠)"," وہ تپ غم کا گلہ ہائے تر دو ترا پاس وہ آکر مرا، ہاتھ سے سر دیکھا (١٨٨٦ء، دیوان سخن، ٦٣)"," وصل میں ہجر میں کسی طرح گوارا کرتا کب تلک ظلم و ستم روز کے دیکھا کرتا (١٨٣٢ء، دیوان رند، ٢٣٦:١)"," نہ دن دیکھتے ہیں نہ شب جانے والے چلے جاتے ہیں کارواں کیسے کیسے (١٩٣٢ء، بے نظیر،کلام بے نظیر، ١٨٥)"]
[" صدقے نبی اے عبدلا تجھ عشق کے دریا میں دل ڈبکی تو کھایا ہے نکل کاں کاں تھے آگاہ دیکھنا (١٦٧٢ء، عبداللہ قطب شاہ، دیوان، ١٩)"," ناداں سے ایک عمر رہا مجھ کو ربط عشق دانا سے اب پڑا ہے سروکار دیکھنا (١٧٩٨ء، دیوان چندا، قلمی نسخہ، ١٩)"," نہ چلو بندے پہ ہر مرتبہ فقرا دیکھو اک ذرا ہوش سنبھالو ابھی دنیا دیکھو (١٨٣٢ء، دیوان رند، ١١٨:١)"," لے گا کروٹ دیکھتا چاہت کی ندی کا بہاؤ ہے اسی پار آرزو اُس پار اترنے کی جگہ (١٩٣٨ء، سریلی بانسری، ٧٩)"," جان پہ کھیلا ہوں میں میرا جگر دیکھنا جی نہ رہے یا رہے مجھ کو اُدھر دیکھنا (١٧٨٤ء، درد، دیوان، ٢٠)"," دعا بھی ہم نے کر دیکھی گلہ بھی ہم نے کر دیکھا نہ اس میں کچھ اثر پایا نہ اس میں کچھ اثر دیکھا (١٩٣٦ء، شعاع مہر، ناراین پرشاد ورما، ١٨)"," حشر برپا کر رہا ہے کیوں خرام ناز بھی دیکھنا زیر قدم میرا دل مضطر نہ ہو (١٩١١ء، تسلیم (امیر اللہ)، کلیات، ١٧٥)"]