ذمہ کے معنی
ذمہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ ذِم + مَہ }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم اور شاذ بطور متعلق فعل مستعمل ہے تحریراً سب سے پہلے ١٧٤٦ء کو "قصہ مہر افروز و دلبر" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["الزام دینا","ذات پر","ذمہ داری","قبضے میں","کار مفوضہ","کار منصبی"]
ذمم ذِمَّہ
اسم
متعلق فعل, اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- ["واحد غیر ندائی : ذِمّے[ذِم + مَے (و لین)]"]
ذمہ کے معنی
["\"جو لوگ شیطان کے وجود خارجی کا دعوی کرتے ہیں اِس کا اثبات انہی کے ذمہ ہے۔\" (١٨٩٩ء، سرسید، مضامین تہذیب الاخلاق، ٢١١:٢)"]
["\"خرچ وغیرہ کا ذِمہ انہوں نے کہا ہمارا ہے۔\" (١٩٥٥ء، منٹو، سرکنڈوں کے پیچھے، ٤٥)","\"نہ اسلامی حکومت ہے، نہ ذِمی ہیں، نہ ذمہ ہے۔\" (١٩٣٧ء، تبرکات آزاد، ٥٥)"]
ذمہ کے مترادف
عہد
امانت, بار, پیمان, تحویل, تف, تفویض, جوابدہی, حوالگی, ذمَّ, سپردگی, ضامنی, ضمانت, عہد, فرض, متعلق, مواخذہ, نوکری, وعدہ, وفاداری, کفالت
ذمہ کے جملے اور مرکبات
ذمہ داری, ذمۂ اصیل, ذمہ بری, ذمۂ کفیل, ذمہ وار, ذمہ واری
شاعری
- اب کی برسات ہی کے ذمہ تھا عالم کا وبال
میں تو کھائی تھی قسم چشم کے تر کرنے کی - لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے
میرا ذمہ ‘ دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے - لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے
میرا ذمہ دیکھ کر گر کوئی بتلادے مجھے - جھوٹ سب جھوٹ یہ غیروں کی سخن سازی ہے
میرا ذمہ ہے جو الفت ہو سرمو دل میں - ہاں سچ ہے ذمہ دار عمل ہے مرا وجود
لیکن وجود جبر ہے یا اختیار ہے
محاورات
- صبر کا وبال اپنے ذمہ لینا