رسالہ کے معنی
رسالہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ رِسا + لا }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم مشتق ہے۔ اردو میں اصل مفہوم اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٦٧٥ء میں امین الدین اعلٰی کے "تولد نامہ (ق)" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بھیجنا","٨٠٠ یا ہزار گھڑ سواروں کا فوجی دستہ","آٹھ سو یا ہزار سواروں کا دستہ","چٹھی نامہ","چھوٹی سی کتاب","چھوٹی کتاب","سو سواروں کا دستہ","گھڑ سوار","مجموعہ مضامین","مختلف اہل قلم کے مضامین کا مجموعہ جو مقررہ وقت پر شایع ہوتا ہے"]
رسل رِسالَہ
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : رِسالے[رِسا + لے]
- جمع : رِسالے[رِسا + لے]
- جمع استثنائی : رِسائِل[رِسا + اِل]
- جمع غیر ندائی : رِسالَہ جات[رِسا + لَہ + جات]
رسالہ کے معنی
"اسبابِ بغاوتِ ہند پر ایک رسالہ لکھا۔" (١٩٣٨ء، حالات سرسید، ٢٢)
"گویا ادب نہ ہوا ان کارسالہ |نیازمانہ| ہو گیا۔" (١٩٨٧ء، اک محشرِ خیال، ٢٤)
بارہ ہزار اسپی رسالے بھی ساتھ ہی چلنا ہوں اب جہاز پہ میں، میری جل پری (١٩٨٤ء، قہرِ عشق، ٢٥٥)
رسالہ کے جملے اور مرکبات
رسالہ بازی, رسالہء فوج
رسالہ english meaning
a messagemission; a letter; sending a letter; a tractan essaybookwriting; a troop of horsecavalryasthma |A|
شاعری
- بن تختہ گل آخرش اس خاک چمن سے
نکلا مرے قاتل کے شہیدوں کا رسالہ - یہ سن کے تہلکہ صف اعدا میں پڑ گیا
ٹوٹا یہ مورچہ وہ رسالہ بگڑ گیا - رسالہ یو دکھنی امو لک تمام
درود بر محمد علیہ السلام - یوں بھی نہ ملا کچھ تو ہر اک پالکی آگے
اس سج سے رسالہ کا رسالہ ہی رواں ہے - کانوں میں داڑھیوں کو لپیٹے رسالہ دار
ڈھاٹے چڑھائے جھوم رہے تھے خطا شعار - اسوار ہرطرف تو ندارد رسالہ دار
طبلق لیے تھے منشی فوجِ ستم شعار