رنجور کے معنی

رنجور کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ رَن + جُور }

تفصیلات

iفارسی مصدر |رنجیدن| مصدر سے مشتق اسم |رنج| کے ساتھ |ور| بطور لاحقۂ فاعلی لگا کر اسم صفت بنایا گیا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٧٢ء میں علی عادل شاہ کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اندوہ گیں","بہت اداس اور پریشان","حرماں زدہ","حسرت زدہ","غم گین","مشکلات میں گھرا ہوا"]

رنجیدن رَنْج رَنْجُور

اسم

صفت ذاتی

رنجور کے معنی

١ - رنجیدہ، افسردہ، فکرمند، غمگین، ملول۔

 کتنی آسیں ٹوٹ گئیں کتنا دل رنجور ہوا (١٩٨٦ء، دامنِ دل، ٧٥)

٢ - مرض یا تکلیف میں مبتلا، ضعیف۔

"سفر خصوصاً بوڑھے رنجُور آدمی کو دونوں صورتوں میں متعذّر"۔  زرد رو کوئی صورتِ رنجور کوئی چشمک زنِ تَجلّی طور (١٨٦٥ء، مکاتیبِ غالب، ٣٨)(١٩٢٤ء، مطلع انوار، ٤١)

رنجور کے مترادف

آزردہ, خفا, مغموم

آزردہ, افسردہ, بیمار, پشیمان, حزیں, خفا, دردمند, دکھی, روگی, علیل, غمزدہ, غمیں, محزون, مریض, مغموم, ملول, ناخوش, نادم, ناراض, کبیدہ

رنجور english meaning

grievedtroubledsorrowfulsad; sickcrossgo acrosspass |A|

شاعری

  • دیکھا جو میں نے یار تو وہ میر ہی نہیں
    تیرے غمِ فراق میں رنجور ہوگیا
  • تن ہجر میں اس یار کے رنجور ہوا ہے
    بے طاقتی دل کو بھی مقدور ہوا ہے
  • ساغر سکون دے گئی دل کی کسک ہمیں
    اکثر خوشی کی بات سے رنجور ہوگئے
  • راھت دہ عاشقان مہجور
    آرام رسان جان رنجور
  • ڈر یہی ہے مجھے احول نہ کہیں ہو جاؤ
    تیڑھی رکھتے ہو بہت عاشق رنجور سے آنکھ
  • نیل پیل کرتے ہیں آنکھیں جو مجھکو دیکھ کر
    ایک رنگ آتا ہے اک جاتا ہے مجھ رنجور کا
  • تلخی جاں کندن آساں اس ترش گوئی سے ہے
    جان شیریں سے ہے جی کھٹا ترے رنجور کا
  • سنگ بالیں میر کا جو باٹ کا روڑا ہوا
    سخت کر جی کو گیا اس جاسے وہ رنجور کیا
  • حلقہ زانو میں سر ہے کیا تیرے رنجور کا
    زندگی سے تنگ ہے منہ جھانکتا ہے گور کا
  • قتل کے لطف تڑپنے کے مزے کچھ اوٹھے
    حیف اس گوں بھی ہمارا تن رنجور نہیں

Related Words of "رنجور":