روک تھام

{ روک (و مجہول) + تھام }

تفصیلات

iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم |روک| کے ساتھ |تھام| بطور حرف تابع لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٨٠ء کو "نیرنگ خیال" میں مستعمل ملتا ہے۔

[""]

اسم

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )

روک تھام کے معنی

١ - کسی انسانی عمل یا رواج وغیرہ کا انسداد، مزاحمت، ممانعت، بندش۔

"عقل انسانی بھی ذرائع ناجائز کی راہ بتاتی ہے مگر یہ تب ہے جب بلا غور و خوض کے اس سے کام کیا جاوے، اخلاق عقل کی ایسی جلد بازی کی روک تھام کے لیے خلق ہوا ہے۔" (١٩٣٧ء، مشیر حسین قدوائی، جذب دل، ١٩)

٢ - احتیاط، نظم و ضبط۔

"علم بھی آگے بڑھتا تھا مگر اپنے وقار و متانت میں کمال بندوبست اور نہایت روک تھام سے قدم اٹھاتا تھا۔" (١٨٨٠ء، نیرنگ خیال، ٩١)

٣ - (بیماری کو) بڑھنے نہ دینے کی تدبیر، پیش بندی۔

 انجام کی خبر نہیں اے چارہ جو مگر اب تک تو درد دل کی بہت روک تھام ہے (١٨٨٤ء، مضامین رفیع، ٧٢:٥)

٤ - نصیحت، تنبیہہ۔

 طعنوں سے کان پاٹ دوں مانوں نہ ان کی روک تھام توبہ وہ مجھ سے بول جائیں تو مرا مومنہ ہے نام (١٩٢٥ء، شوق قدوائی، عالم خیال، ٣٥)

مترادف

تدارک