زمان کے معنی

زمان کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ زَمان }

تفصیلات

iاصلاً عربی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["خواہ وہ مُختصر ہو یا طویل","عہد","گزشتہ","موجودہ یا آیندہ","نیز دوران","ہنگام","(تصوّف) جو ہر وقت بدلتا رہے","دنیا اور مافیہا","مُسلسل اور پے در پے لمحات یا آنات کا مجموعہ، حرکت کی مِقدار (جس طرح نُقطے کی حرکت یا کشش سے خط صورت پذیر ہوتا ہے اسی طرح لمحے یا آن کے تسلسل سے زمان وجود میں آتا ہے) روز و شب اور ماہ و سال کے تسلسل کی ہیئتِ مجموعی، وہ جو موجود ہو، اس کا وجود قرار پذیر نہ ہو"]

اسم

اسم ظرف زمان ( مذکر - واحد )

زمان کے معنی

١ - مسلسل اور پے در پے لمحات یا آفات کا مجموعہ، حرکت کی مقدار (جس طرح نقطے کی حرکت یا کشش سے خط صورت پذیر ہوتا ہے اسی طرح لمحے یا آن کے تسلسل سے زبان وجود میں آتا ہے) روز و شب اور ماہ و سال کے تسلسل کی ہئیت مجموعی وہ جو موجود ہو، اس کا وجود قرار پذیر نہ ہو، جگ، مدت، عصر، وقت۔

 جہاں مست و زماں مست و مکاں مست عناصر مست، جوہر مست، جاں مست (١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٢٢)

٢ - وقت، خواہ وہ مختصر ہو یا طویل، ہنگام۔

 صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب (١٩٣٥ء، بال جبریل، ١٣٦)

٣ - دور، عہد، گزشتہ، موجودہ یا آئیندہ، نیز دوران۔

"زمان حمل میں عورت کی زندگی دو گانہ ہوتی ہے۔" (١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ١٨٣:٢)

٤ - رت، موسم، فصل۔

 گزری بہار زیست کی، آیا زمان دے اب کوئی دم میں عمر کا بھی مرحلہ ہے طے (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٢٤٧:٢)

٥ - آسمان

 یا عربی کے الہ یا عجمی کے خدا تجھ سے زمیں و زماں تجھ سے خلا و ملا (١٩٨٤ء، سمندر، ١٦)

٦ - دنیا اور مافیہا۔

 میں ہوں وہ طوطی گلزار ریاض سرمدی جس کے مرجانے سے بے رونق زماں ہو جائے گا (١٨٦٤ء، دیوان حافظ ہندی، ٥)

٧ - [ تصوف ] جو ہر وقت بدلتا رہے۔ (مصباح التعرف، 137)۔

زمان کے مترادف

ساعت, دور, عہد, وقت

جگ, دور, رُت, عرصہ, عصر, فصل, مُدّت, موسم, وقت

زمان کے جملے اور مرکبات

زمانہء تاریخ, زمانہء جدید, زمانہء دراز, زمانہء عدت, زمانہء فترت, زمانہء کمبری, زمان و مکان

زمان english meaning

timeperiodduration; season; a long time; an age; tense; the world; the heavens; fortunedesting(PL. ازمنہ az|minah) time

شاعری

  • فرق

    کہا اُس نے دیکھو‘
    ’’اگر یہ محبت ہے‘ جس کے دو شالے
    میں لپٹے ہوئے ہم کئی منزلوں سے گزر آئے ہیں!
    دھنک موسموں کے حوالے ہمارے بدن پہ لکھے ہیں!
    کئی ذائقے ہیں‘
    جو ہونٹوں سے چل کر لہُو کی روانی میں گُھل مِل گئے ہیں!

    تو پھر اُس تعلق کو کیا نام دیں گے؟
    جو جسموں کی تیز اور اندھی صدا پر رگوں میں مچلتا ہے
    پَوروں میں جلتا ہے
    اور ایک آتش فشاں کی طرح
    اپنی حِدّت میں سب کچھ بہاتا ہُوا… سنسناتا ہُوا
    راستوں میں فقط کُچھ نشاں چھوڑ جاتا ہے
    (جن کو کوئی یاد رکھتا نہیں)
    تو کیا یہ سبھی کچھ‘
    اُنہی چند آتش مزاج اور بے نام لمحوں کا اک کھیل ہے؟
    جو اَزل سے مری اور تری خواہشوں کا
    انوکھا سا بندھن ہے… ایک ایسا بندھن
    کہ جس میں نہ رسّی نہ زنجیر کوئی‘
    مگر اِک گِرہ ہے‘
    فقط اِک گِرہ ہے کہ لگتی ہے اور پھر
    گِرہ در گِرہ یہ لہو کے خَلیّوں کو یُوں باندھتی ہے
    کہ اَرض و سَما میں کشش کے تعلق کے جتنے مظاہر
    نہاں اور عیاں ہیں‘
    غلاموں کی صورت قطاروں میں آتے ہیں
    نظریں جُھکائے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں
    اور اپنے رستوں پہ جاتے نہیں
    بات کرتے نہیں‘
    سر اُٹھاتے نہیں…‘‘

    کہا میں نے‘ جاناں!
    ’’یہ سب کُچھ بجا ہے
    ہمارے تعلق کے ہر راستے میں
    بدن سنگِ منزل کی صورت کھڑا ہے!
    ہوس اور محبت کا لہجہ ہے یکساں
    کہ دونوں طرف سے بدن بولتا ہے!
    بظاہر زمان و مکاں کے سفر میں
    بدن ابتدا ہے‘ بدن انتہا ہے
    مگر اس کے ہوتے… سبھی کُچھ کے ہوتے
    کہیں بیچ میں وہ جو اِک فاصلہ ہے!
    وہ کیا ہے!
    مری جان‘ دیکھو
    یہ موہوم سا فاصلہ ہی حقیقت میں
    ساری کہانی کا اصلی سِرا ہے
    (بدن تو فقط لوح کا حاشیہ ہے)
    بدن کی حقیقت‘ محبت کے قصے کا صرف ایک حصہ ہے
    اور اُس سے آگے
    محبت میں جو کچھ ہے اُس کو سمجھنا
    بدن کے تصّور سے ہی ماورا ہے
    یہ اِک کیفیت ہے
    جسے نام دینا تو ممکن نہیں ہے‘ سمجھنے کی خاطر بس اتنا سمجھ لو
    زمیں زادگاں کے مقدر کا جب فیصلہ ہوگیا تھا
    تو اپنے تحفظ‘ تشخص کی خاطر
    ہر اک ذات کو ایک تالہ ملا تھا
    وہ مخصوص تالہ‘ جو اک خاص نمبر پہ کُھلتا ہے لیکن
    کسی اور نمبر سے ملتا نہیں
    تجھے اور مجھے بھی یہ تالے ملے تھے
    مگر فرق اتنا ہے دونوں کے کُھلنے کے نمبر وہی ہیں
    اور ان نمبروں پہ ہمارے سوا
    تیسرا کوئی بھی قفل کُھلتا نہیں
    تری اور مری بات کے درمیاں
    بس یہی فرق ہے!
    ہوس اور محبت میں اے جانِ جاں
    بس یہی فرق ہے!!
  • مکاں کی قید سے‘ حدِّ زمان سے باہر
    ہم اپنے ذہن کی موجِ رواں میں رہتے ہیں
  • مکاں کی قید سے، حدِ زمان سے باہر
    ہم اپنے ذہن کی موجِ رواں میں رہتے ہیں
  • کہکشاں سے پرے، آسماں سے پرے، رہگزارِ زمان و مکاں سے پرے
    مجھ کو ہرحال میں ڈھونڈنا تھا اُسے، یہ زمیں کا سفر تو بہانہ ہوا
  • ترے اک اشارے کے منتظر
    یہ زمین بھی یہ زمان بھی
  • زمان ذبح دل ہرگز نہ پایا اس کے سینے پر
    ہدف تیر نظر کا ہوکے جو آہوے چیں آیا
  • خط ہو گیا ہے وجہ صفائی رقیب سے
    یاد آئیں گے زمان تخالف گزر گئے
  • روداد زمان پاستانی
    یوں نقل ہے خامے کی زبانی
  • زمان ذبح نکلے روح لفظ، مرحبا، کہہ کر
    مرے قاتل تو ان دست و بازو ہو تو ایسی ہو
  • ایام کود کی و زمان شباب و شیب
    یہ تین ٹھیکہ تو من عمر رواں کے ہیں

محاورات

  • (زمانے کی) ہوا پلٹنا
  • آج اس کا دور (زمانہ) ہے تو کل اس کا دور (زمانہ ) ہے
  • آج کل اس کے دور دورے ہیں۔ آج کل اس کا زمانہ ہے۔ آج کل ان کے بڑے دور دورے ہیں
  • آزما لینا۔ آزمانا
  • آنکھوں سے زمانہ دیکھا ہے
  • اگلے زمانے کے / والے
  • الٹا زمانہ آیا ہے یا لگا ہے یا ہے
  • الٹا زمانہ لگا ہے
  • الٹا زمانہ نواسی کو تکے نانا
  • ایک زمانہ ایسا آئے گا

Related Words of "زمان":