زنجیر کے معنی

زنجیر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ زَن + جِیر }

تفصیلات

iاصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے "دیوان" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(مجازاً) تسلسل","(مجازاً) سلسلہ وار","ایک مالا جو عورتیں گلے میں پہنتی ہیں","بیڑی پاؤں کی","چاندی یا سونے، یا کسی اور دھات کے تاروں کی کڑیوں سے بنی ہوئی حلقہ در حلقہ لڑی","دروازے کی کنڈی","دھات کے چھوٹے چھوٹے حلقوں کی لڑی جیسے گھڑی کی، گلے کی منہال کی، بٹنوں کی","فیل کے ساتھ تعداد ظاہر کرنے کے لئے","فیل کے ساتھ تعداد کے واسطے مخصوص","کنڈی دروازے کی"]

اسم

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )

اقسام اسم

  • جمع : زَنْجِیریں[زَن + جی + ریں (ی مجہول)]
  • جمع غیر ندائی : زَنْجِیروں[زَن + جی + روں (واؤ مجہول)]

زنجیر کے معنی

١ - چاندی یا سونے، یا کسی اور دھات کے تاروں کی کڑیوں سے بنی ہوئی حلقہ دار حلقہ لڑی۔

 لاتے لاتے کام میں الفت لائے گی زنجیروں کو بڑتھے بڑھتے زلفیں تیری طوق کم ہو جائیں گی (١٩٣٦ء، تجلائے شہادت ثاقب، ١٣٦)

٢ - دروازے کی کنڈی۔

 کھولی زنجیر اس نے اندر کی پر نہ دروازے نے اجازت دی (١٩٣٦ء، جگ بیتی، ٢٦)

٣ - [ مجازا ] سلسلہ وار، لگاتار۔

"اس کی چھوٹی سی کہانی میں اتنا پھیلاؤ آتا ہے کہ وہ بیک وقت معاشرتی اقتصادی تاریخی اور سیاسی کڑیوں کی ایک زنجیر میں گندھا ہوا پاتا ہے" (١٩٨٧ء، کچھ نئے اور پرانے افسانہ نگار، ١٤٣)

٤ - ایک مالا جو عورتیں گلے میں بہنتی ہیں، لڑی۔

"سونے کی نہایت لمبی چوڑی زنجیر.گلے میں پہننے کے بعد بل دے کر ہاتھ کے اندر سے بغل کے نیچے سے نکال دیتے ہیں" (١٩٧٩ء، عورت اور اردو زبان، ١٧١)

٥ - [ مجازا ] رکاوٹ، مانع۔

 اپنی دانست میں جس دام سے آزاد تھا میں وہی اس پاؤں کی زنجیر ہے معلوم نہ تھا (١٩٨١ء، تشنگی کا سفر، ٧٤)

٦ - [ کیمیا ] دو یا دو سے زیادہ ایٹموں یا گروہوں کی اس طرح باہم دگر پیوستگی کہ وجود میں آنے والے سالمے، ایون یا اصلیے کی شکل زنجیر سے مشابہ ہو۔

"یہ کاربن کے ایٹم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کو ویلنٹ بانڈ کے ذریعے متحد ہو کر ایک زنجیر یا حلقہ بنا لیتے ہیں" (١٩٨٥ء، نامیاتی کیمیا، ٨)

٧ - بانس کو کبھی جریب اور کبھی طناب اور کبھی زنجیر کہتے ہیں، یہ پیمانہ عموماً 40 گز ہوتا ہے۔

"جریب، طناب، زنجیر، بانس، گز سے بڑے پیمانہ میں داخل ہے" (١٩٤٩ء، فرہنگ عثمانیہ، ٢٥٧)

٨ - فل کے ساتھ تعداد کے واسطے مخصوص۔

ہاتھی ٣٠ زنجیر، گھوڑے ١٠ ہزار۔ (١٩٣٢ء، تخت طاؤس، ١٥٤)

٩ - [ مجازا ] تسلسل۔

"بارہ مختلف یک جسمی زنجیروں کی توقع کرنا چاہیے کیونکہ ایسے یک جسموں میں ہر ایک سیٹ کے ١٢ میں کا ایک کوئی جسم ضائع ہو جاتا ہے" (١٩٧١ء، جینیات، ٣٣٢)

١٠ - کوئی شے جو جکڑ کر رکھ دے اور آزادانہ نقل و حرکت سے روکے، جکڑ بندی۔

"یہ ہندوستانیوں کی زنجیر غلامی سے آزاد ہونے کی آخری اور ناکام کوشش تھی" (١٩٨٧ء، قوی زبان، کراچی، اگست، ٦٠)

زنجیر کے جملے اور مرکبات

زنجیر سازی, زنجیرپا, زنجیرہ بند, زنجیرہ بندی, زنجیرہ دار, زنجیری تعامل, زنجیر بستہ, زنجیر بندی, زنجیر دار, زنجیر در, زنجیر زندان, زنجیر ساز, زنجیر کی کڑی, زنجیر مالا

زنجیر english meaning

a chainan archipelago

شاعری

  • جنوں تھا نہ مجکو نہ چپ رہ سکا
    کہ زنجیر ٹوٹی تو میں غل کیا
  • ٹوتی زنجیر پائے میر مگر
    رات سُنتے رہے ہیں ہم غل سا
  • جنوں میں اب کی کام آئی نہ کچھ تدبیر بھی آخر
    گئی کل ٹوٹ میرے پاؤں کی زنجیر بھی آخر
  • آگے ہماری عہد سے وحشت کو جا نہ تھی
    دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی
  • رکھیں اُمید رہائی اسیر کا کل و زلف
    مری تو باتیں ہیں زنجیر صرف الفت کی
  • پابہ گِل سب ہیں‘ رہائی کی کرے تدبیر کون
    دست بستہ شہر میں کھولے مری زنجیر کون
  • جس کو بھی چاہا اسے شدّت سے چاہا ہے فراز
    سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا
  • عشق تہذیب میں زنجیر ہوا
    کوئی وحشت‘ کوئی شدت نہ رہی
  • صحرا سمٹ کے پاؤں کی زنجیر بن گیا
    ایسی بھی اک ادا مرے دیوانہ پن میں تھی
  • مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂِ قیدِ حیات
    مگر اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے

محاورات

  • امید کی زنجیر میں جکڑے ہونا
  • پاؤں میں زنجیر پڑنا
  • پاؤں میں زنجیر ڈالنا
  • پیتم بسیں پہاڑ پر اور ہم جمنا کے تیر۔ اب کا ملنا کٹھن ہے کہ پاؤں پڑی زنجیر
  • زنجیر ‌سے ‌بندھنا
  • زنجیر بہ پا کرنا
  • زنجیر سے بندھنا
  • زنجیر عرش کھڑکانا
  • طوق ‌و ‌زنجیر ‌ہونا
  • طوق وزنجیر

Related Words of "زنجیر":