زوال کے معنی
زوال کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ زَوال }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٨٥ء کو "مقالات شروانی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["گزرنا","ترقی اور عروج کا جاتا رہنا","ترقی یا عروج کے کم ہونے یا ختم ہونے کی کیفیت","جاتا رہنا","سورج کا نصف النہار","سُورج یا چاند کا غروب کی طرف میلان","مرتبے سے گرنا","نیچے جانا","کمزور ہونا","کمی واقع ہونا"]
زول زَوال
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : زَوالوں[زَوا + لوں (واؤ مجہول)]
زوال کے معنی
"حکومت کے زوال میں میرے نزدیک جہاں بے شمار اسباب و عوامل نے اپنا اپنا کردار ادا کیا وہاں زوال کا ایک اہم سبب ظلم و تشدد تھا۔" (١٩٨٧ء، اورلائن کٹ گئی، ٦٣)
"عربوں نے دن اور رات کی ساعتوں کے نام رکھے ہیں . ذر در پھر بزدع . پھر زوال۔" (١٩٦٦ء، بلوغ الادب (ترجمہ) ٥٧٨)
"ہندوستان کے ہاتھی پر زوال آ چکا ہے۔" (١٩٨٤ء، زمیں اور فلک اور، ١١٣)
"فوجی افسروں کی بیگمات تک نظمیں کہہ کے مجموعے چھپوانے لگی ہیں، یہ کہیں زوال کی علامت تو نہیں۔" (١٩٨٧ء، جنگ، کراچی، ٩ اکتوبر، II)
زوال کے مترادف
اتار, خزاں, کڑی
اتار, ادبار, اِنحطاط, تباہی, تنزل, رجعت, زَوَلَ, ضرر, گھاٹا, گھٹاؤ, مصیبت, ناکامیابی, نقص, نقصان, کمبختی, کمزوری, کمی, ہبوط, ہلاکت
زوال کے جملے اور مرکبات
زوال پذیر, زوال الخوف, زوال الشک, زوال آمادہ, زوال پذیری, زوال شب, زوال کا وقت, زوال کی گھڑی
زوال english meaning
declining (as the sun form the meridian); declination; sitting (of the sun); declinewanedecay; fallcessation; failure; harmloss; humiliation; miserydecaydeclinefailurefallmiserysetting of the sun
شاعری
- اُجڑ چکا ہوں‘ تو کیا ہے‘ اس کا ملال کیسا
محبّتوں میں عروج کیسا‘ زوال کیسا - جو آج میرا نہیں ہے‘ وہ کل میرا ہوگا
کہ ہر زمانہ عروج و زوال رکھتا ہے - دکھا کے چہرۂِ روشن‘ وہ کہتے ہیں سرِ شام
وہ آفتاب نہیں ہے‘ جسے زوال ہوا - گونج میں ٹوٹتے ستاروں کی
سب عروج و زوال سنتا جا - کاخِ بلند بام کو شاید خبر نہیں
بنیاد میں زوال سا آیا ہوا تو ہے - مرے فکر وفن تری انجمن، نہ عروج تھا نہ زوال ہے
مرے لب پہ تیرا ہی نام تھا مرے لب پہ تیرا ہی نام ہے - خط کھورہا ہے اس رخ روشن کی آب وتاب
دن آفتاب حسن پہ آئے زوال کے - ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام
مہر گردوں ہے چراغ رہگزار بادیاں - تموز آہ ہے سینے میں کیونکہ دم نکلے
ہر ایک بیٹھے ہے وقت زوال پردے میں - میں کہا سمجھوں زوال اس کا فلک سے لیکن
کیا کروں مجھ کو تو معلوم نہیں ہے تنجیم
محاورات
- ایلچی راز والے نیست۔ ایلچی کو زوال نہیں
- ایلچی کو زوال نہیں
- جس نے رنڈی کو چاہا اسے بھی زوال اور جس کو رنڈی نے چاہا اس کی بھی تباہی
- راستی را زوال کے باشد
- زوال الدنیا بارتقاء السفلہ
- زوال پر ہونا
- زوال دولت ہونا
- سفید بال جوانی کا زوال
- قدر نعمت بعد زوال
- قدر نعمت بعد زوال (نعمت)