زیور کے معنی
زیور کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ زے + وَر }
تفصیلات
iفارسی زبان میں اسم |زیب| کے ساتھ |ور| بطور لاحقۂ صفت لگانے سے لفظ |زیور| بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٨٢ء کو "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["زیب و زِینت کا باعث","آرائش کا ذریعہ یا سبب","ابھو کن","بناؤ سِنگھار کا ذریعہ یا سامان","زیب دینے والا","زیب و زینت","زیب ور کا مخفف","شان بڑھانے والی شے","گہنا پاتا"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : زیوَرات[زے + وَرات]
- جمع غیر ندائی : زیوَروں[زے + وَروں (واؤ مجہول)]
زیور کے معنی
"ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ یہاں سے کبھی کوئی مہر، سکہ، زیور یا اسلحہ جنگ کے ٹکڑے ملے ہوں۔" (١٩٨٧ء، صحیفہ، لاہور، جولائی | ستمبر، ٥٩)
"سیاستدان کے لیے مکر و فریب، جھوٹ اور بے کرداری زیور بن گئے ہیں۔" (١٩٨١ء، آتش چنار، ٩٤٦)
زیور english meaning
ornament (of gemsor goldor silver)jewelsuse a trick of this game
شاعری
- شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا - ربط حسن عشق ہے وہاں پھول ہیں یاں داغ ہیں
ہے وہاں خلخال یاں بیڑی کا زیور پاؤں میں - ناز کہتا ہے کہ زیور سے ہو تزئین جمال
نازکی کہتی ہے سرمہ بھی کہیں بار نہ ہو - مکلل تھیاں زرو زیور میں ساریاں
بجتر ، پے بدل ، چنچل ووناریاں - زناروں نے زیور و زری لی
نقاشوں نے نقش چاتری لی - فی الحقیقت حسن کا زیور ادا او ناز ہے
چاند کا گہنا حسینوں کے لئے ہے ٹیپ ٹاپ - دلبری حسن کا زیور ہے جو ناجی بناؤ
دل اٹکتا نہیں چمپا کلی اور مالوں سے - ہر اک کا زیور و زر لوٹ کر یہ کہتے تھے
کہ آج ہاتھ لگا ہے ہمیں یہ گنج عروس - خوش میں بھی ترے زیور گل سے ہوں کسی دن
گوندھوا کے مرے تار رگ جاں میں پہن پھول - گرمی مےن پہن کر کہیں گہنا نہ صنم جا
بے روپ کرے گا ترے زیور کو پسینا
محاورات
- ایک حسن آدمی ہزار حسن کپڑا۔ لاکھ حسن زیور کروڑ حسن نخرا
- زیور رجے کا سنگھار اور بھوکے کا ادھار ہے
- زیور سے گوندنی کی طرح لدا رہنا۔ زیور میں لدا رہنا
- زیور طبع سے آراستہ کرنا
- زیور طبع سے آراستہ ہونا
- زیور میں لدنا