سائیں سائیں کے معنی
سائیں سائیں کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سا + ایں (ی مجہول) + سا + ایں (ی مجہول) }
تفصیلات
iحکایت الصوت کے حوالے سے |سائیں| کی تکرار سے |سائیں سائیں| بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٥٩ء سے "راگ مالا" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["سنساہٹ جیسے سائیں سائیں ہوا چل رہی ہے","ہوا چلنے کی آواز","ہوا کے چلنے کی آواز"]
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
سائیں سائیں کے معنی
"کوئی آسیب تھا بھی وہ درخت کی جڑ میں سمٹ گیا پتوں میں بکھر گیا اور جھونکوں کی سائیں سائیں میں تبدیل ہو گیا۔" (١٩٨٦ء، نگار، کراچی، جولائی، ٣٩)
وہ سائیں سائیں کے کتنے عجیب سناٹے وہ سنسنی وہ پراسرار ایک عالمِ ہو (١٩٧٥ء، حکایتِ نے، ٢٠)
"گولیاں پہاڑی پر سائیں سائیں جائیں، دھنا دھن، ٹھوں ٹھا، نیں ٹھنانا ناکی آوازیں کلیجے نکالے دیں۔" (١٩٢٨ء، پس پردہ، ١٢١)
"یہ لڑکا دیکھیں کیسے مزے سے سائیں سائیں کر کےگھومتا ہے۔" (١٩٧٦ء، تین بہنیں، ٥٤)
سائیں سائیں english meaning
rustle (of wind)
شاعری
- میر ازبسکہ ناتواں ہوں میں
جی میرا سائیں سائیں کرتا ہے - دل تو میرا اُداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے - رہیں کس کو سانسے کہ اب ضعف سے
مرا جی ہی کرنے لگا سائیں سائیں - بیووں کا قافلہ نہ سپاہ شریر تھی
بس رن کی سائیں سائیں تھی اور یہ صغیر تھی - ہو کا عالم تھا یہاں کرتا تھا جنگل بھائیں بھائیں
سنسنی اٹھتی تھی سن سن کر ہوا کی سائیں سائیں
محاورات
- جی سائیں سائیں کرنا
- سائیں سائیں جیبھ پر اور گبر کپٹ من بیچ۔ وہ نہ ڈالے جائیں گے پکڑ نرک میں کھینچ