سرخاب کے معنی
سرخاب کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سُر + خاب }
تفصیلات
iاصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں بطور اسم اور گا ہے بطور اسم صفت استعمال ہوتا ہے ١٦٠٣ء کو "ابراہیم نامہ" میں مستعمل ملتا ہے, m["افغانستان میں ایک دریا","ایک قسم کا آبی پرندہ جس کے متعلق خیال ہے کہ جوڑے میں سے کوئی مرجائے تو دوسرا زندہ نہیں رہتا","دیکھئیے: علیحدہ","رستم کا ایک بیٹا","رستم کا ایک گھوڑا","سرخ پانی","سرخ رنگ کا گھوڑا","سرخ شراب","شراب کا پیالہ","کمیت گھوڑا"]
اسم
صفت ذاتی ( واحد ), اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- ["جمع غیر ندائی : سُرْخابوں[سُرْ + خا + بوں (و مجہول)]"]
- ["جمع غیر ندائی : سُرْخابوں[سُر + خا + بوں (و مجہول)]"]
سرخاب کے معنی
[" نہ قشقل نہ سلی نہ سرخاب ہے تمام ان کے لو ہو سے سرخ آب ہے (١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٠٨٣)"]
["\"سرخاب کے نر اور مادہ دن بھر ساتھ رہتے ہیں اور رات آنے پر علیحدہ ہو جاتے ہیں\" (١٩٨٨ء، صدیوں کی زنجیر، ٦١٢)","\"حالت تو اس قدر خستہ و خراب اور اس پر آزادی کا سرخاب۔ (١٨٨٥ء، فسانۂ مبتلا، ١١١)"]
سرخاب کے مترادف
مرغابی
چکوا, خون
سرخاب english meaning
(co. pal|lá) (F. پرلی par|lí co. pal|lí)distantnextopposite
شاعری
- نظر سے کیوں گراتی ہے ہمارے اشک گلگوں کو
پڑی رہ کیا تلے تیرے پر سرخاب ہے شبنم - گرے شکرپہ لب کی ہوکے بے تاب
چھ شکر خورے دوبط ایک سرخاب - شب کو ہو جاتا ہے ہم سے وہ گل اندام جدا
جیسے سرخاب سے سرخاب سرشام جدا - چونی یوں دسی نت کے موتیاں بھتر
کہ سرخاب بیھٹی ہے انڈیاں اوپر - الفت ہمدرد میں باز آئیں آنکھیں خواب سے
نیند اوڑ جاتی ہے ہر شب نالہ سرخاب سے - بہت پرواز پر اک دینکی سنتے ہیں آیا ہے
پر اپنی دم میں کوئی اوس نے کیا سرخاب کا جوڑا
محاورات
- ان کے کونسا سرخاب کا پر لگا ہے
- سرخاب کا (کے) پر لگنا
- سرخاب کا پر لگا ہے
- سرخاب کا پر لگنا
- کیا تمہارے سرخاب کا پر لگا ہے