سنسان کے معنی
سنسان کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سُن + سان }
تفصیلات
iسنسکرت الاصل دو الفاظ |شونیہ+سن| سے ماخوذ |سنسان| اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨١٠ء کو "کلیاتِ میر" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["بے آباد","بے رونق","دہشت ناک","دیکھئیے: سُن","غیر آباد","وہ جگہ جہاں آدمی کی بوتک نہو","وہ جہاں اداسی چھائی ہو (جگہ)","وہ جہاں کوئی بولتا نہ ہو","کرنا لگنا معلوم ہونا، نظر آنا، ہونا کے ساتھ"]
شونیہ+سن سُنْسان
اسم
صفت ذاتی
سنسان کے معنی
"دیہات قصبات میں مئی جون کی دوپہریاں بھی دسمبر جنوری کی آدھی راتوں سے کم سنسان نہیں ہوا کرتیں۔" (١٩٨٦ء، انصاف، ١٠٨)
"جب سے مرحوم حیدر آباد سے گئے ہیں، حیدر آباد جیسا شہر سنسان ہو گیا۔" (١٩١٢ء، چند ہم عصر، ٦٢)
یہاں ادھر خاموش یہ سنسان وہ ڈر سے یہ سہمی ہوئی حیران وہ (١٨٢٨ء، مثنوی مہر و مشتری، ٦٥)
"کوئی تو اس سنسان ویرانے میں اپنا ہمصغیر پیدا ہو۔" (١٩١٤ء، راج دلاری، ١١٠)
اس وقت کہ دنیا نیند میں ہے سنسان ہے سطح سمندر کی (١٩٢٨ء، سلیم پانی پتی، افکار سلیم، ٩٧)
سنسان کے مترادف
اداس, خالی, سونا, مغموم, ویرانہ, ویران
اجاڑ, اداس, افسردہ, بھیانک, چپ, خالی, خاموش, خراب, خرابہ, خرب, خوفناک, ساکت, سُونا, مغموم, ملول, مہیب, ویران, ویرانہ, ڈراؤنا, ہولناک
سنسان english meaning
Stilllonelydeserteddrearydesolatebackgammonogling
شاعری
- اک گونچ بھٹکتی ہے سنسان پہاڑوں میں
جب رات کے سینے میں دل میرا دھرکتا ہے - خرابہ ہو گیا سنسان ہیں محلے سب
امیدیں روتی ہیں قبروں پہ جا کے زار قطار - طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تیری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں - ڈھاٹا شقی نے باندھ کے کھولا کمند کو
نیچا کیا وہیں سے سنسان بلند کو - کیا حضرت مومن کہیں کعبے کو سدھارے
سنسان ہے گھر کس لیے کیوں آج ہے در بند - اس وقت کہ دنیا نیند میں ہے
سنسان ہے سطح سمندر کی - اماں کا گھر بھرا ہوا ویران کر گئے
واری ہماری گود کو سنسان کر گئے