سورج مکھی کے معنی

سورج مکھی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ سُو + رَج + مُکھی }

تفصیلات

iسنسکرت الاصل ترکیب |سورج مکھ| کے فارسی قاعدے کے تحت |ی| بطور لاحقہ نسبت بڑھانے سے |سورج مکھی| بنا۔ اردو میں بطور اسم نیز بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٧٦٩ء کو "آخر گشت" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["آفتاب پرست","آفتاب رُو","آفتاب گرداں","آفتاب گردش","آفتاب گردک","ایک زرد پھول جس کا مُنہ عموماً آفتاب کی طرف رہتا ہے","ایک قسم کی آتش بازی","ایک قسم کی گول پنکھیا","ایک قسم کے بہت بڑے زرد رنگ کے پھول کا نام جو آفتاب کے ساتھ اپنا رخ بدلتا جاتا ہے"]

اسم

اسم نکرہ ( مذکر - واحد ), صفت نسبتی

سورج مکھی کے معنی

["١ - سورج سے مشابہ ایک زرد رنگ کا پھول نیز اس کا پودا، اس کے بیج سے تیل نکالا جاتا ہے، گل آفتاب۔","٢ - ایک طرح کی دیوار گیری جس کی چمنی کے پیچھے سفید چمکیلی دھات کی پنکھیا سی لگی ہوتی ہے اور روشنی میں سورج کی طرح چمکتی ہے۔","٣ - ایک وضع کی آتش بازی جس میں بہت سے پٹاخے لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ (فرہنگِ آصفیہ)۔","٤ - پان کے پتے سے مشابہ بڑا سا کار چوبی یا منقش پنکھا جسے عوام الناس میلوں ٹھیلوں میں اُٹھا کر لے جاتے پیچھے بچوں کا ہجوم ہوتا اور تمام راستے رقص و سرور کے ساتھ ایک مقررہ مقام تک جاتا تھا، یہ پنکھا عموماً بزرگ کے مزار پر بطور نذر چڑھایا جاتا تھا۔ بعض مسلم ریاستوں میں یہ رسم انگریزوں کی حکومت کے آخر قائم رہی۔","٥ - میدے، گھی، شکر، دودھ اور کیوڑے وغیرہ ملا کر بنائی ہوئی ایک مٹھائی۔","٦ - [ عورات ] وہ بادل کا ٹکڑا جو سورج کو مُنھ پر آکر اسے چھپالے۔ (فرہنگِ آصفیہ)۔"]

["\"سورج مکھی . یہ دو تخم برگوں کے خاندان کمپوزیٹی سے تعلق رکھتا ہے۔\" (١٩٨٠ء، مبادی نباتیات، ٦٤٠:٢)","\"اندر اس کے سورج مکھیاں روشن . بالائے مسند ایک ماہ طلعت ناز و ادا سے جلوہ فرما۔\" (١٩٤٣ء، دلی کی چند عجیب ہستیاں، ٥٤)","\"بڈھے بڈھے لوگ کہتے، ہیں کہ غدر کے بعد آج ایسی دھوم سے سورج مکھی نہیں اُٹھی۔\" (١٩٢٩ء، خمارِ عیش، ٤١)","\"جب سفید قوام قائم ہو جائے تو ایک ایک سورج مکھی پر قوام چڑھا کر الگ پھیلے برتن میں رکھتے جائیں۔\" (١٩٤٧ء، شاہی دسترخوان، ٢٣٨)"]

["١ - پیدائشی طور پر انتہائی سفید رنگت والے انسان جن کے سر کے بال، بھنویں اور پلکیں تک سفید ہوتی ہیں اور چندھیا کر دیکھتے ہیں۔"]

["\"ان کے بعد ایک اور بیگم اتریں یہ ماشا اللہ سورج مکھی تھیں۔\" (١٩٦٠ء، ماہِ نو، کراچی، مئی، ٤٩)"]

شاعری

  • نہ رکھے ہاتھ میں سورج مکھی خورشید کی کیوں کر
    فلک کی آنکھ جھجلاتی ہے تیرے سامنے ہوتے
  • سورج مکھی تیرا سو یوں ہر تن کی ہے تن میں جھلک
    ہر پھول میں ہے باس جیوں ہیرے کی ہر کن میں جھلک
  • سورج مکھی سوں بول پھر روشن طبع ہے ہاشمی
    سورج سے موں پڑتے ٹک یک جو دور والا ہوئے گا
  • نہ یہ رتبۂ شمس ہوتا کبھی
    اٹھاتا گر اس کی نہ سورج مکھی