سہنا کے معنی
سہنا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سَہ (فتحہ س مجہول) + نا }
تفصیلات
iپراکرت زبان سے اردو قاعدے کے تحت ماخوذ مصدر ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٥ء کو "جواہر اسرار اللہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["تیغ زنی کی مشق کے لئے ایک قسم کی تلوار","دیکھئیے: سَہ"]
اسم
فعل لازم
سہنا کے معنی
میں کہ ہر چوٹ سہ گیا چُپ چاپ اپنے سینے پر رکھ لیے پتھر (١٩٨١ء، تشنگی کا سفر، ١١١)
"میں یہ نہیں سہ سکتی کہ لوگ میری طرف انگلیاں اٹھائیں کہ وہ قاتل کی بیوی جاتی ہے۔" (١٩١٤ء، راج دلاری، ١٥٣)
"جو کروں گی وہ بھگتیں گی جو کہوں وہ سہیں گی۔" (١٩١٠ء، لڑکیوں کی انشا، ٤٥)
ملا غیر سے وہ میں چپ رہ گیا نہ سہنی تھی جو بات وہ سَہ گیا (١٨٧٨ء، سخن بیمثال، ٢)
سہنا english meaning
to bearsupport; to suffer; enduretolerateput up with(F. مرکھنی mar|khani) Goringbear ; endure ; sufferto be disgestedto endureto sufferto support
شاعری
- ظلم سہنا بھی ہُوا ظلم ہی اک حد کے بعد
خامشی بھی تو ہوئی پُشت پناہی کی طرح - تختی کے سر پہ اوس نے یہ لکھ دیا یہ زر تھا
مہر پدر سے بہتر سہنا ستم گرو کا - بہت دن جب رہیا تھا سائیں کا مکھ دیکتے یک تل
لگیا ڈھلکا دیکھیا سہنا کہ جھلکا کوہ طوری ہے - مرا دل آتشِ فرقت میں اُس دل پر کی دہتا تھا
نہ تھا کچھ بن جو آنا اس سے ، درد و رنج سہنا تھا - وہ لڑکا پرائچہ کا کیا سہنا ہے
پیارا پیارا اور من مہنا ہے - سارے عام پہ چمکتا ہے سہیل یمنی
اک جگہ ہوتی ادھوڑی کہیں چمڑا سہنا
محاورات
- پردیس چھانا یا سہنا
- جوکھم اٹھانا یا سہنا
- گرم و سرد اٹھانا۔ دیکھنا یا سہنا
- نرم گرم اٹھانا یا سہنا
- نرم گرم سننا (یا سہنا)
- نرم گرم سہنا
- ٹوٹا اٹھانا( یا سہنا)