شکایت کے معنی
شکایت کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ شِکا + یَت }
تفصیلات
iعربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم مشتق ہے۔ عربی سے اردو میں بعینیہ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["شکایت کرنا","داد خواہی","گلہ گزاری"]
شکی شِکایَت
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : شِکایات[شِکا + یات]
- جمع غیر ندائی : شِکایَتوں[شِکا + یَتوں (و مجہول)]
شکایت کے معنی
"کہنے لگی ماں مجھے ظفر سے کوئی شکایت نہیں۔" (١٩٨٨ء، نشیب، ٢٨٥)
"اس روز میں نے اپنا سر پیٹ لیا شوہر کے خلاف کوئی شکایت سننے کو تیار نہیں۔" (١٩٨٨ء، نشیب، ٢٨٦)
"دل بڑھنے کی شکایت پر مجھے . ہسپتال میں ایک عام بیمار کی حیثیت سے داخل کر دیا گیا۔" (١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ١٢)
شکایت کے مترادف
روگ, عزا, دہائی, نالہ
استغاثہ, انداوہ, بدی, برائی, بیماری, تکلیف, دکھ, دکھڑا, دُہائی, روگ, شَکَوَ, شکوہ, علالت, علّت, غیبت, فغان, گلہ, مرض, نالہ
شکایت کے جملے اور مرکبات
شکایت مند, شکایت ناک, شکایت کنندہ, شکایت گزار
شکایت english meaning
Lamentationcomplaintaccusationadmonishadvice counselComplaintexhortillnesslamentationsay a word of advice
شاعری
- نہ شکوہ شکایت نہ حرف و حکایت
کہو میر جی آج کیوں ہو خفا سے - گو کہ سر خاک قدم پر ترے لوٹے اس میں
اپنا شیوہ ہے نہیں یہ کہ شکایت کیجئے - سخن کی نہ تکلیف ہم سے کرو
لہو ٹپکے ہے اب شکایت کے بعد - اُس بُت کی کیا شکایت راہ و روش کی کریے
پردے میں بدسلوکی ہم سے خدا کرے ہے - نہیں ملتے تو اک ادنیٰ شکایت ہے نہ ملنے کی
مگر مل کر نہ ملنے کی شکایت اور ہوتی ہے - خدا گواہ شکایت مرا شعار نہیں
ترے نثار تری ہر خوشی مجھے منظور - شکایت کیوں اسے کہتے ہو‘ فطرت ہے یہ انساں کی
مصیبت میں خیال عیشِ رفتہ آ ہی جاتا ہے - ہم نے سیکھا ہی نہیں‘ شکوے شکایت کرنا
ہم تو داغوں کو بھی سینے پہ سجالیتے ہیں - کیوں ڈوبتی، بجھتی ہوئی آنکھوں میں ہے روشن
راتوں کو شکایت ہے تو اتنی ہے سحر سے! - اُس نے حال پُوچھا تو یاد ہی نہ آتا تھا
کسِ کو کسِ سے شکوہ تھا، کس سے کیا شکایت تھی!
محاورات
- آپ کی شکایت میرے سرآنکھوں پر
- شکایت رفع ہونا
- شکایت (میرے) سر آنکھوں پر