شکوہ کے معنی
شکوہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ شِک + وَہ }
تفصیلات
iفارسی سے اصل ساخت و مفہوم کے ساتھ اردو میں داخل ہوا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٧٠٧ء کو "کلیاتِ ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["شکایت کرنا","رعب داب","مرکبات میں جیسے داراشکوہ","کرنا ہونا کے ساتھ"]
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : شِکْوے[شِک + وے]
- جمع : شِکْوے[شِک + وے]
- جمع غیر ندائی : شِکْووں[شِک + ووں (و مجہول)]
شکوہ کے معنی
"گھوڑا مخصوص میٹھی میٹھی آواز میں شکوہ کر رہا تھا۔" (١٩٨٦ء، انصاف، ١٣٤)
تیسویں شوال کی تھی یک بیک آئی بلا شکوۂ ہیضہ میں یعنی ہو گیا وہ مبتلا١٩١٩ء، گلزار بادشاہ، ٢٣٧
شکوہ کے مترادف
گلہ
بزرگی, تجمل, ترس, جلال, خوف, داب, دبدبہ, رعب, شان, شوکت, شکایت, شَکوَہ, عظمت, گلہ, مہابت, ڈر
شکوہ کے جملے اور مرکبات
شکوہ سنج, شکوہ آمیز, شکوہ گزار, شکوہ گزاری, شکوہ مند, شکوہ بندی, شکوہ سنجی, شکوہ شکایت, شکوہ طرازی
شکوہ english meaning
Complaint; upbraidingbe harmedbe lostdetrimentdetrimentalharmharmfulinjurious
شاعری
- نہ شکوہ شکایت نہ حرف و حکایت
کہو میر جی آج کیوں ہو خفا سے - شکوہ ہے رونے کا یہ بیگانگی سے تیری
مژگانِ تروگر نہ آنکھوں میں آشنا ہے - شکوہ عبث ہے میر کہ کڑھتے ہیں سارے دن
یا دل کا حال رہتا ہے درہم تمام شب - شکوہ تو کچھ نہیں‘ مگر اتنی سی بات ہے
تونے وہ کہہ دیا‘ جو دلِ دشمناں میں تھا - شکوہ رکھتا ہوں مگر عجزِ تمنا یہ ہے
ہر ستم بھی تیرا میری ہی خطا ہو جیسے - پھول سے‘ رُت سے، باغباں سے نہیں،
اپنا شکوہ تو ہے صبا سے ہی - اُس نے حال پُوچھا تو یاد ہی نہ آتا تھا
کسِ کو کسِ سے شکوہ تھا، کس سے کیا شکایت تھی! - اے اب ورنگ باغ وزارت فلک شکوہ
تو وہ ہے جس کی مہر نے سب کو کیا نہال - آپ ہی ظلم کرو آپ ہی شکوہ الٹا
سچ ہے صاحب روش الٹی ہے زمانہ الٹا - کرتے ہیں مسجدوں میں شکوہ مستاں زاہد
یعنی آنکھوں کا بھووں سے یہ گلا کرتے ہیں
محاورات
- آپ کا شکوہ میرے سر آنکھوں پر
- شکر شکوہ رہ جانا