صاف صاف کے معنی

صاف صاف کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ صاف + صاف }

تفصیلات

iعربی زبان سے مشتق اسم صفت |صاف| کی تکرار سے |صاف صاف| مرکب تکرار بنا۔ صفت تکرار خالصتاً اردو کی چیز ہے اور بیان میں زور یا شدت پیدا کرنے کے لیے برتی جاتی ہے۔ مذکور مرکب اردو میں بطور متعلق فعل نیز بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٨٩٢ء کو "مہتابِ داغ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["بے لاگ","بے لگاؤ","کھری کھری","کھلم کھلا","کُھلم کُھلا"]

اسم

صفت ذاتی, متعلق فعل

صاف صاف کے معنی

["١ - اُجلا، سفید، بے داغ۔","٢ - جس میں کوئی ابہام یا گنجلگ نہ ہو، بالکل واضح۔"]

[" رُخ صاف صاف ہے تو زباں لال لال ہے ہے خوں کی چھینٹ بھی تو کہیں خال خال ہے (١٩٣٣ء، عروج، عروجِ سخن، ٤٠١)"," پسند آئے ہم کو بھی استعار داغ زباں پاک و شستہ، بیاں صاف صاف (١٨٩٢ء، مہتاب داغ، ٩٤)"]

["١ - سچ سچ، کھری کھری، بے لاگ، لگی لپٹی رکھے بغیر۔","٢ - علی الاعلان، کھلم کُھلا، واضح طور پر۔","٣ - بالکل، پوری طرح، کلیۃً۔"]

["\"میں نے ہر بات صاف صاف بتا دی ہے۔\" (١٩٤٥ء، الف لیلہ و لیلہ، ١٤٢:٦)","\"یہ بہت بڑی بات ہے اور اس لیے میں نے اپنا فرض سمجھا کہ صاف صاف اس کا اظہار کردوں۔\" (١٩٣٦ء، خطباتِ عبدالحق، ٤٨)","\"وہ صاف صاف ارتقائیت پرست اور فطریت پرست ہے۔\" (١٩٦٣ء، اصولِ اخلاقیات (ترجمہ)، ٩٠)"]

صاف صاف english meaning

ring a bell

شاعری

  • آہو ختن کے سب ترے دیدے سے ڈرتے ہیں
    دھوئی دھلائی آنکھ ہے اے یار صاف صاف
  • بے دوبدو ہوے نہ نکلتا مرا غبار
    آج ان سے صاف صاف مری برملا ہوئی
  • غزل کہا کرو اے بحر صاف صاف ایسی
    بشکل موج نہ شعروں میں گنجلک دیکھیں
  • کیا نہیں باقی اب رہی بوند لہو کی ایک بھی
    نکلی ہے دھوئی دھائی سی آج آہ صاف صاف
  • بیاں صاف صاف اور ایسا متین
    پھسلتا ہے جس پر دل سامعین
  • رنگت جو صاف صاف گل یاسن کی ہے
    تصویر ٹھیک ٹھیک تمہارے بدن کی ہے

محاورات

  • صاف صاف سنانا
  • صاف صاف کہنا
  • یہ صاف صاف ہے