صنوبر کے معنی
صنوبر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ صَنو (و مجہول) + بَر }چیڑ کے درخت کا نام
تفصیلات
iعربی زبان سے اسم جامد ہے۔ عربی سے من و عن اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٠٧ء کو "کلیاتِ ولی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["اس سے معشوق کے قد کو تشبیہ دیتے ہیں","ایک درخت کا نام","چیڑ کا درخت جس میں چلغوزے لگتے ہیں اور نہایت سیدھا ہوتا ہے","چیڑ کا درخت جس میں چلغوزے لگتے ہیں اور نہایت سیدھا ہوتا ہے","سر و ناز","سردِ سہی","سروِ ناز"],
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد ), اسم
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : صَنوبَروں[صَنو (و مجہول) + بَروں (و مجہول)]
- لڑکی
صنوبر کے معنی
"اس کے بڑے گھر کے در سرو کے اور کڑیاں صنوبر کی تھیں۔" (١٩٨٧ء، آخری آدمی، ١٧)
قامت کو تیرے سرو و صنوبر نہیں کہا جیسا بھی تو تھا اس سے تو بڑھ کر نہیں کہا (١٩٧٨ء، جاناں جاناں، ١٦٩)
صنوبر english meaning
Finpineany conbearing treeSanober
شاعری
- سن صنوبر کی کہانی، اے ددا جی، بڑھ گیا
ان نگوڑے حبشیوں، بھتنوں، سیاہوں کا دماغ - دونون مہمل ہیں صنوبر بھی محل سے نکلے
ایک شمشاد کو تم کرتے ہو آزاد عبث - خراماں ہو جو وہ آفت کا ٹکڑ صحن گلشن میں
چھری قمری پہ پھر جائے چلیں آرے صنوبر پر - اس کے بوٹا سے جو قد سے نہ جھکا پائی سزا
بانس گلزار میںبالاے صنوبر ٹوٹے - بانس لگواتا ہے اکثر جاکے وہ بالا بلند
سرور شمشاد و صنوبر کے شجر پر ان دنوں - سرو و شمشاد و صنوبر کو نہیں کچھ نسبت
قد بالا کو ترے ہم نے بلا کا دیکھا - گڑے جاتے ہیں شمشاد و صنوبر فرط غیرت سے
الہٰی کون سا سرو رواں گلزار میں آیا - چنار و صنوبر عجب سایہ دار
کہ ہر شاخ پر جن کی طوبیٰ نثار - صدا یہ دیتی ہے ہر فاختہ صنوبر پر
کہ سبز وار گلستاں میں ہوں میں راس روس - گیا سب پھول کا تو بت سو اب اس پھول نوبت ہے
سدا رکھ آپ یا رب توں اس سرو صنوبر کوں