عاشقی کے معنی
عاشقی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ عا + شِقی }
تفصیلات
iعربی زبان سے مشتق اسم |عاشق| کے ساتھ |ی| بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے |عاشقی| بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["عاشق ہونا","عشق ہونا"]
عشق عاشِق عاشِقی
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
عاشقی کے معنی
"جگدیش چندر . پاؤ بھر مٹھائی کا نذرانہ دے کر رسم عاشقی نبھا گیا۔" (١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ١٢٨)
زنداں ہے خانوادہ طریق حبیب کا یہ عاشقی کا سلسلہ ہے بیڑیاں نہیں (١٨٩٦ء، تجلیاتِ عشق، ١٧٩)
عاشقی کے مترادف
طلب, چاہ
آشفتگی, پریت, پریم, پیت, چاہ, چاہت, حُب, طلب, عشق, فریفتگی, لگن, محبت, محویت
عاشقی کے جملے اور مرکبات
عاشقی معشوقی
عاشقی english meaning
Making loveamorousnesslovecourtship; gallantry; the being in love; the state or condition of a lovertrickle water into dying person|s mouth
شاعری
- تھی صَعب عاشقی کی ہدائت ہی میر پر
کیا جانیے کہ حال نہایت کو کیا ہُوا - لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تُو نے
جو کُچھ کہ میر کا اس عاشقی نے حال کیا - دل ہی کے غم میں گزری اپنی تو عمر ساری
بیمار عاشقی یہ کس دن بھلا رہے گا - رہتا ہے ہڈیوں سے مزے جو ہما لگا
کچھ دردِ عاشقی کا اُسے بھی مزا لگا - گدازِ عاشقی کا میر کے شب ذکر آیا تھا
جو دیکھا شمع مجلس کو تو پانی ہوگئی گھل کر - ہر طرح تو ذلیل ہی رکھتا ہے میر کو
ہوتا ہے عاشقی میں کوئی خوار ایک طرح - کچھ کوہکن ہی سے نہیں تازہ ہوا یہ کام
بہتیرے عاشقی میں موئے سر کو پھوڑ پھوڑ - دل بھی صنم پرست‘ نظر بھی صنم پرست
اس عاشقی میں خانہ ہمہ آفتاب تھا - وفا کے باب میں الزامِ عاشقی نہ لیا
کہ تیری بات کی اور تیرا نام بھی نہ لیا - اُلجھن تمام عمر یہ تارِ نفس میں تھی!
دل کی مراد عاشقی میں یا ہوس میں تھی!
محاورات
- ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر
- ایں ہم اندر عاشقی بالاے غم ہاے دگر
- عاشقی اور خالہ جی کا گھر
- عاشقی اور ماموں جی کا ڈر
- عاشقی چپست بگو بندئہ جاناں بودن،دل بدست دگرے دادن وحیران بودن
- عاشقی خالہ جی کا گھر نہیں
- عاشقی نہ کیجئے تو کیا گھاس کھودئیے
- عاشقی کا دم بھرنا
- کچی شیشی مت بھرو جس میں پڑی لکیر۔ بالے پن کی عاشقی گلے پڑی زنجیر
- کرنا چاہے عاشقی اور ماما جی کا ڈر