غبار

{ غُبار }

تفصیلات

iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق کلمہ ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٦٧٨ء کو "کلیات غواصی" میں مستعمل ملتا ہے۔

["غبر "," غُبار"]

اسم

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )

غبار کے معنی

١ - ہوا میں اڑنے والی خاک، دھول، گرد، گرد آلود ہونا۔

 نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظارِ حضورۖ کہ میرے سر پہ مدینے کا ہو غبارِ حضورۖ (١٩٨٤ء، ذکرِ خیر الانام، ١٠٤)

٢ - عداوت، دشمنی، غصہ۔

 سمجھ گیا جو ملیں خاک میں تمّنائیں غُبار ہے مری جانب سے آسماں تجکو (١٩١٥ء، جانِ سخن، ١٠٩)

٣ - کدورت، میل، رنج، ملال، کینہ۔

 آج جی بھر کے رو لیے لیکن پھر بھی دل کا غبار کم نہ ہوا (١٩٨٧ء، بُوئے رسیدہ، ٢٥١)

٤ - دھند، تاریکی، کہر کی کیفیت۔

 غبار درد سجا کر سلگتی آنکھوں میں میں تتلیوں کی طرح خوشبوؤں کو ڈھونڈتا ہوں (١٩٨١ء، اکیلے سفر کا اکیلا مسافر، ٢٢)

٥ - خطِ غبار، غبار کی صورت لکھی ہوئی تحریر جو نہایت باریک نقطے لگا کر وضع کی جاتی ہے یعنی باریک نقطوں کے مجموعے سے جلی قلم تحریر بنائی جاتی ہے۔

"محمد رشید فتحپوری. خط غبار و گلزار دشیفتہ سے ماہر،" (١٩٣٦ء، ہنر مندان اودھ، ٢٤)

٦ - [ کاشتکاری ] ازِگل کوا وہ باریک اور ملائم رُواں جو بیج کے جماؤ کے اوپر ہوتا ہے۔ (ماخوذ: اصطلاحاتِ پیشہ وراں، 140:6)

مترادف

آزردگی, زنگ, رنج, گرد, کدورت, گھٹا, دھول, خاک

مرکبات

غبار آلود, غبار خاطر, غبار راہ, غبار دل