غرقاب

{ غَر + قاب }

تفصیلات

iعربی زبان سے مشت اسم |غرق| کو فارسی زبان سے ماخوذ اسم |آب| کے ساتھ ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم و صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

[""]

اسم

اسم کیفیت ( مذکر - واحد ), صفت ذاتی

غرقاب کے معنی

["١ - گرداب، بَھْنور، ورطہ۔","٢ - سیلاب، ڈباؤ پانی، گہرا پانی۔"]

[" لگا پڑنے کو جب وہ عرش رتبہ پڑا غرقاب میں جرت کے عتبہ (١٧٩١ء، ہشت بہشت، ١٦١:٧)","\"بھیجا اُن پر غرقاب اور ٹڈی اور چچڑی اور مینڈک اور لوہو، کئی نشانیاں جدی جدی، پھر تکبر کرتے رہے اور تھے وہ لوگ گہنگار۔\" (١٨٤٥ء، احوال الانبیا، ٤٩٨:١)"]

["١ - ڈوبا ہوا، پانی میں ڈوبا ہوا۔","٢ - محو، مستغرق، کھویا ہوا، مدہوش۔","٣ - گہرا عمیق (پایاب کی ضد)۔","٤ - نشتہ میں چور، نشہ میں دُھت، نشہ میں بت بنا ہوا، جسے: چُلو میں اُلو ، لوٹے میں غرقاب۔ (فرہنگِ آصفیہ)"]

[" فرعون کو غرقاب سمجھنے والو فرعون کی اولاد ابھی باقی ہے (١٩٧٧ء، سرکشیدہ، ٣٨١)","\"سمر قندو بخارا کو جنکی دھن میں وہ نو عمر غرقاب ہے اس کے صرف خالِ رخسار کا صدقہ بنا کر اسکے سامنے پیش کرتے تھے۔\" (١٩٣٩ء، مطالعہ حافظ)"," بحرِ الفت میں قدم سوچ کے رکھنا پروین ہے کنارے ہی پہ غرقاب نہ پایاب نہیں (١٩١٣ء، دیوانِ پروین، ٨٣)"]