فگار کے معنی

فگار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ فِگار }

تفصیلات

iفارسی زبان سے ماخوذ اسمِ صفت ہے اردو میں بھی بطور صفت ہی استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٢٨ء کو "مرآت الحشر" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔ تراکیب و مرکبات میں بطور لاحقہ بھی استعمال ہوتا ہے۔, m["زخم خوردہ","زخم رسیدہ","مرکبات کے آخیر میں آتا ہے جیسے سینہ فگار","کنایتاً عاشق"]

اسم

صفت ذاتی

اقسام اسم

  • جمع : فِگاران[فِگا + ران]
  • جمع غیر ندائی : فِگاروں[فِگا + روں (و مجہول)]

فگار کے معنی

١ - واماندہ، عاجز، گھائل، مجروح۔

"اس سے غرض نہیں کہ سر پھٹ گیا یا اُنگلیاں فگار ہوئیں لیکن پانچ سال کی سخت ریاضت کے بعد . اپنے فن میں کامل تھے۔" (١٩٨٤ء، کیمیا گر، ١١)

فگار کے مترادف

گھائل, مجروح, زخمی

آزردہ, بِسمل, تھکاماندہ, خستہ, دلفگار, زخمی, گھائل, مجروح

فگار english meaning

woundedsoregalled; crippled; lame; wounding; afflictingaffected distractedafflicted distractedlacerated |P|

شاعری

  • دل خستہ جو لہو ہوگیا‘ تو بھلا ہوا کہ کہاں تلک
    کبھو‘ سوز سینہ سے داغ تھا‘ کبھو درد و غم سے فگار تھا
  • وہ تیغ کھول دیتی تھی لوہے کا بھی حصار
    تھا اس کے ہاتھ سے دل چار آئنہ فگار
  • فگار ہوگئے تلوے بہت چبھے کانٹے
    الجھ کے رہ گیا پھٹ پھٹ کے گوشہ داماں
  • دل زخم خوردہ فگار ہے نہ سکون ہے نہ قرار ہے
    مری ایک خاطر زار ہے کہ بزار غم کا شمار ہے
  • تنہا نہ اس کے غم سے ہے دل تنگ زین کا
    خوگیر کا بھی سینہ جو دیکھا تو ہے فگار
  • ہوئی ہے اب کے جہاں میں کوئی خوشی سی خوشی
    کہ ہنس رہے ہیں پڑے زخم سینہ ہائے فگار
  • چاک اس ڈول سے ہے ہر دیوار
    جیسے چھاتی ہو عاشقوں کی فگار
  • اس پہلوے فگار کو بستر سے کام کیا
    مدت ہوئی کہ چھوٹی ہے آرام کی طرف
  • لدے ہاتھیوں پر جو ہو کر شکار
    ہوئیں بوجھ سے پشت فیلاں فگار
  • تمہارے ہاتھوں ہمارے دلِ فگار میں آہ
    سنان و خنجر و پیکاں کی ہے دکان لگی

Related Words of "فگار":