لچک کے معنی
لچک کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ لَچَک }
تفصیلات
iسنسکرت سے ماخوذ اسم |لچک| کے ساتھ |ک| بطور لاحقۂ اسمیت لگانے سے |لچک| اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٣٩ء کو "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اٹھنا","(امر) لچکنا کا","(س ۔ لَس ۔ اٹھنا)","چم و خم","وہ قوت جس سے اجسام جھک کر اپنی اصلی حالت پر آجاتے ہیں","کسی چیز کا نزاکت سے جنبش کرنا","کسی چیز کا نزاکت سے جھک جانا"]
لچ لَچَک
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
لچک کے معنی
دور تک یہ نرم پودوں کی لچک یہ لپکتی لہلہاتی کھیتیاں (١٩٧٦ء، جاں نثار اختر، ثارگریباں، ٩٣)
"والد صاحب کی فیصلے میں لچک کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔" (١٩٨٨ء، تبسم زیر لب،، ١٠٢)
لچک کے مترادف
جھکاؤ
بل, جنبش, جھٹکا, جھکاؤ, خم, خمیدگی, ضرب, لرزش, لوچ, لہر, ملائمت, نرمی, کپکپاہٹ, کجی, ہچکولا
لچک کے جملے اور مرکبات
لچک دار, لچک داری
لچک english meaning
bendingbending down; flexibility; springelasticity; softnessmildnessdelicacyadaptabilitybuoyancyresilience
شاعری
- جو جائے کبھی سیر کو وہ صحن چمن میں، حرکت سے صبا کی
سو بار کمر جھوک سے چوٹی کے لچک جائے، اللہ ری نزاکت - لچک لچک کر ہر اک قدم پر کمر میں ب ل پڑرہے ہیں پیہم
سنک سنک کر ہواے عشوہ گھنیری زلفیں ہلا رہی ہے - موتیا ریشم نظر آیا جو کل بازار میں
پھر گئی آنکھوں میں گردن اور باہوں کی لچک - شانوں پہ ہے چھٹکی ہوئی زلفوں کی لٹک
اعضا میں ہے تازا شاخ گل کی سی لچک - چین نکلی‘ گئی وہ چولی مسک
آئی اتنے ہی میں کمر میں لچک - باندھ مت تلوار اے قاتل لچک آجائے گی
ہے تری پتلی کمر بوجھا بہت ہے ڈاب کا - لچک سی آگئی ہے شاخ گل کے شانہ میں
خدا کے واسطے اپنی کمر کو مت لچکا - ٹوٹے ہوئے پنجے کی طرح سے مرے آگے
جاتی ہے لچک شاعر مغرور کی گردن - یارو ڈرو کمر سے مڑوڑو نہ بھر کے انگ
آجا کہیں لچک تو ابھی لاگ جائے لنگ - کیا نزاکت سے لچک جاتا ہے واہ
جس طرح سے سیف کی دمتی ہے ڈال