لچکا کے معنی

لچکا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ لَچ + کا }

تفصیلات

iہندی زبان سے ماخوذ اسم |لچک| کے ساتھ |ا| بطور لاحقہ نسبت لگانے سے |لچکا| بنا۔ اردو زبان میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٠٠ء کو "من لگن" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["ایک قسم کا پتلا گوٹا","ایک کا پتلا گونا"]

اسم

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )

اقسام اسم

  • واحد غیر ندائی : لَچْکے[لَچ + کے]
  • جمع : لَچْکے[لَچ + کے]
  • جمع غیر ندائی : لَچْکوں[لَچ + کوں (و مجہول)]

لچکا کے معنی

١ - جھٹکا، ہچکولا نیز موچ، چک۔

 کمرِ کلک میں آئے گا نہیں گر لچکا بال باندھا لکھوں مضمون کمر کا سیدھا (١٨٦٨ء، شعلہ حوالہ (واسوخت رعنا)، ٤٣٠:٢)

٢ - صدمہ، ضرب۔

 لچکا سچ انن کوں لال کا ہے نالاں نہ کس کلال کا ہے (١٧٠٠ء، من لگن، ١٠٤)

٣ - [ سالوتری ] گھوڑے کی کمر کی بیماری جو ریڑھ کی ہڈی اور کمر کے پٹھوں کے خلل سے ہوتی ہے جس کی وجہ سے گھوڑا سواری دینے کے قابل نہیں رہتا۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 102:5)

"ہرگز کچھ خوف نہ کریں کہ اس حیلے سے لچکا صاف نکل جاتا ہے۔" (١٨٧٢ء، رسالہ سالوتر، ٢١٢:٢)

٤ - چلنے میں حرکت کی دلکش ادا، مٹک، جنبش، لرزش۔

"چال میں وہ لچکا نہ آیا جو عورت کے لیے ضروری ہے۔" (١٩٦٧ء، عشق جہانگیر، ٢٧٧)

٥ - زری کی تیار کی ہوئی گوٹ جو دو انگل سے چار انگل تک چوڑی ہو، چوڑا گوٹا۔

 افشاں کے ملیں گے تم کو جگنو وہ مانگ کہ کہکشاں کا لچکا (١٩٨١ء، ورقِ انتخاب، ٢٢)

٦ - [ بنائی ] موگا، ریشم کا زنانہ پاجاموں کے لائق تیار کیا ہوا کپڑا۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 87:2)

"ساٹھ ستّر کشتی، بجرا، مور پنکھی، لچکا جن میں ہزارہا کنول. منور ہیں۔" (١٩٤٣ء، دلی کی چند عجیب ہستیاں، ٥٤)

٧ - بڑی کشتی، بجرا، مور پنکھی۔

لچکا کے مترادف

گوٹا

بل, جھونک, جھٹکا, چک, دھنک, دھکا, ضرب, گوٹا, مسالا, موچ, کناری, ہچکولا

شاعری

  • کمر کو تیرے کچھ لچکا نہ پہنچے
    دو پٹہ سج نہ باندھا کر کمر بند
  • نزاکت سے کھاتی ہے لچکا کمر
    چلے جیسے برسات میں مون سون
  • لچک سی آگئی ہے شاخ گل کے شانہ میں
    خدا کے واسطے اپنی کمر کو مت لچکا
  • لچک سی آگئی ہے شاخ گل کے شانے میں
    خدا کے واسطے اپنی کمر کو مت لچکا

Related Words of "لچکا":