لڑانا کے معنی
لڑانا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ لَڑا + نا }
تفصیلات
iسنسکرت سے ماخوذ اسم |لڑنا| کا تعدیہ |لڑانا| اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٦٥ء کو "علی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["جنگ کرانا","ساجھا ملانا","شریک کرنا","لڑائی کرانا","کُشتی کرانا"]
لڑنا لَڑانا
اسم
فعل متعدی
لڑانا کے معنی
"ہاتھی، اونٹ. بارہ سنگھے.تیتر بٹیر بھی لڑائے جاتے تھے۔" (١٩٨٨ء، لکھنویات ادب، ٣)
آنکھ اوس شوخ نے ہر اک سے لڑا کر جرات ہم کو سب سے یہ لڑایا ہے کہ جی جانے ہے (١٨٠٩ء، جرأت، کلیات، ٢٣٨)
"میں آج اکھاڑے پر نہیں آؤں گا تم سب کو لڑا دینا تاکہ ناغہ نہ ہو۔" (١٩٧٨ء، مہذب اللغات، ١٥٣:١١)
ہم تم چلیں جو ساتھ تو مٹ جائے رنگ باغ گل سے رخ آپ لالہ سے بندہ لڑائے داغ (١٨٧٢ء، عاشق لکھنوی، فیض نشاں، ٩٨)
پہونچتی ہے شکست اک دن بتوں سے شیشۂ دل پر لڑایا جاتا ہے یہ آبگینہ زور پتھر سے (١٨٤٢ء، دیوان رند، ١٧٩:١)
"چار چار پیسے لڑا کر سودا کھایا۔" (١٩٠١ء، فرہنگ آصفیہ، ١٨٦:٤)
"اپنے ہاتھ سے پتنگ بناتے تھے اور خود لڑاتے تھے۔" (١٨٩٦ء، سیرت فریدیہ، ٤٣)
"انہوں نے. کہا کوئی تگڑم لڑانا پڑے گی۔" (١٩٨٧ء، روز کا قصہ، ٨٨)
شاعری
- اب اس طرف لڑیگی بھلا کا ہے کو نگاہ
دل میں تو کھپ رہا ہے لڑانا پتنگ کا - انصاف تو کر عشق کجا اور کجا دل
معمول تو ہے جوڑ برابر کو لڑانا - اس سے اور آنکھیں لڑانا شوق کھیل اس کو نہ جان
نام اپنا میں بدل ڈالوں جو تو زک پا نہ جائے - بد گماں دیکھو کچھ اس میں بھی نہ ڈالیں رخنہ
روزن در سے نہیں آنکھ لڑانا اچھا - غیر سے آنکھیں لڑانا اس کا بے حکمت نہیں
اس کے تئیں خر جان کر دیتا ہے وہ جل چشم سے - انصاف تو کر عشق کجا اور کجا دل
معمول تو ہے جوڑ برابر کا لڑانا
محاورات
- آنکھ (یا آنکھیں) لڑانا
- اٹ کی سٹ لڑانا
- پنجہ لڑانا
- پیٹی لڑانا یا مارنا
- جان لڑادینا یا لڑانا
- جی لڑادینا یا لڑانا
- طبیعت لڑانا
- گنڑ چتریاں لڑانا
- نگاہ لڑانا
- نگاہیں ڈھونڈنا۔ لڑانا ۔ ملانا