لہرانا کے معنی
لہرانا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ لَہ (فتحہ ل مجہول) + را + نا }
تفصیلات
iسنسکرت سے ماخوذ اسم |لہر| کے ساتھ |انا| بطور لاحقۂ مصدر و تعدیہ لگانے سے |لہرانا| بنا۔ اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٧١٨ء کو "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بھر بھر آنا","خراٹے بھرنا","زلف کا ہلنا","سانپ کا چلنا","سانپ یا زلف کا جنبش کرنا","مائل ہونا","موج مارنا","موجزن ہونا","کھیتی کا جنبش کرنا","ہلوریں لینا"]
لہر لَہْرانا
اسم
فعل لازم
لہرانا کے معنی
"آپ ان شعراء کی عظیم و ضخیم شاعری، سمندر کی طرح لہراتی، جھومتی اور گونجتی ہوئی محسوس ہوگی۔" (١٩٨٤ء، سمندر، ٩)
جب زراعت تمام ہیں پک جائے نئے سبزے کی طرح کب لہرائے (١٨٠٢ء، باغ و بہار، ١٩٧)
پھن اٹھا کر آہ ! مستی میں وہ لہرانا ترا جیسے ہو جو بن کر متوالی کوئی ناز آفرین (١٩١٠ء، سرور جہاں آبادی، غمکدہ سرور، ٢٣)
جو ہواؤں میں ہے اور فضاؤں میں ہے اور دعاؤں میں ہے کوئی پھیلائے دامن کہ لہرائے آنچل اسے دیکھنا (١٩٨٣ء، بے آواز گلی کوچوں میں، ٩١)
مارسیہ زلف کو دیجے نہ بہت پیچ اپنا دل سودا زدہ لہرائے تو کیا ہو (١٨٩٢ء، مسرور کاکو روی (انتخاب)، دیوان، ١٤)
"شادی کا مسئلہ درپیش ہوا، ناگپور کے کروڑپتی سیٹھ مکھن لال بہت لہرائے ہوئے تھے، ان کی لڑکی سے شادی ہوگئی۔" (١٩٣٦ء، پریم چند، پریم پچیسی، ٦٠:٢)
ہو دور تو جگنو ہے قریب آئے تو خوشبو لہرائے تو شعلہ ہے چھنک جائے تو گھنگھرو (١٩٦٦ء، درد آشوب (کلیات احمد فراز)، ١٨٣)
"آواز سے پہچان گیا کہ وہ موچی صاحب لہرا رہے ہیں۔" (١٩٠١ء، الف لیلہ، سرشار، ١٠٠١)
"لکشمی بے حد حسین ہے، بدن کا رنگ سرخ ہے، لہراتی برق کی مانند ہر وقت جگمگاتی رہتی ہے۔" (١٩٩٠ء، بھولی بسری کہانیاں، بھارت، ١٩٠:٢)
لے میں زلفوں کی طرح جس وقت لہراتا ہے دل اک جنوں پرور جزیرہ میں پہنچ جاتا ہے دل (١٩٣٣ء، فکر و نشاط، ٨)
نگار وقت کے چہرے پر رنگ لہرائے جبین عزم و صداقت دمک اٹھی جس سے (١٩٧٥ء، ماجرا، ١٤٧)
لہراتا تھا کوثر بھی کہ یہ در ادھر آئے فرماتے تھے حیدر یہ بہادر ادھر آئے (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٩٦:١)
پڑا دریا جو اس زلف سپہ کا سایہ کاٹا کالے کا بھی دیکھا ہے نہ یوں لہرایا (١٧٨٠ء، سودا، کلیات، ٢١:١)
"زرد پرچم لہرانا آپ کا کام ہے ڈاکٹر گار ! یہ آپ کا ادارہ ہے۔" (١٩٩٠ء، پاگل خانہ، ٢٨١)
کبھی تو جوش محبت بھی دل کو لہرائے کبھی تو جھاگ کی مانند نہر میں بھی بہے (١٨٦١ء، کلیات اختر، ٩٠٤)
برس کر تو نہ لہرا چشم طوفاں زا کو رونے پر نہ دے آنکھوں کو چھینٹے ابر گوہر بار جانے دے (١٨٣٢ء، دیوان رند، ٢١٧:١)
"کہنے میں نہیں آتا جو ماں باپ پر ہوئی سب نے یہ بات لہرا دی، گرو جی نے. رانی کیتکی کو اپنے پاس بولا لیا ہو گا۔" (١٨٠٣ء، رانی کیتکی، ٣٤)
محاورات
- آواز کا لہرا جانا یا لہرانا
- پرچم اڑانا (یا لہرانا یا بلند کرنا)
- طبیعت کا لہرانا یا لہریں لینا