مارا ہوا کے معنی
مارا ہوا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ ما + را + ہُوا }
تفصیلات
iہندی زبان سے ماخوذ مصدر |مارنا| سے فعل امر|مارا| کے بعد سنسکرت زبان سے ماخوذ مصدر |ہونا| سے صیغۂ حالیہ تمام |ہوا| لگانے سے مرکب بنا۔ اردو زبان میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٣٩ء کو "کلیاتِ سراج" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["اجاڑا ہوا","برباد کیا ہوا","تباہ کیا ہوا","قتل شدہ"]
اسم
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جنسِ مخالف : ماری ہُوئی[ما + ری + ہُو + ای]
- واحد غیر ندائی : مارے ہُوئے[ما + رے + ہُو + اے]
- جمع : مارے ہُوئے[ما + رے + ہُو + اے]
- جمع غیر ندائی : مارے ہُووں[ما + رے + ہُو + اوں (و مجہول)]
مارا ہوا کے معنی
١ - کشتہ، گھائل، زخمی۔
جس کی نگہِ سادہ کے ہم مارے ہوئے ہیں وہ شوخ، یگانہ ہے نہ یگانہ کسی کا (١٩٣٤ء، شعلہ طور، ١٢)
٢ - تباہ کیا ہوا، برباد کیا ہوا، اجاڑا ہوا۔
جو پھول تھا اداس تھا جو برگ تھا وہ خشک دل یا خزاں کا مارا ہوا کوئی باغ تھا (١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، بادۂ عرفان، ٥٠)
٣ - چرایا ہوا، غضب کیا ہوا۔
"شاعری کا مال گودام ہے جہاں طرح طرح اور قسم قسم کا مارا ہوا اور لوٹا ہوا مال اپنی قسمت کو رو رہا ہے۔" (١٩٧٠ء، برش قلم، ٢٨١)
شاعری
- مارا ہوا ہے خضر محبت کی تیغ کا
آب حیات شوق میں تیرے حیاہوا - مارا ہے جس کو اے صنم وہ رات دن تجھ پاس ہے
دامن کو بلکا ، گرد ہو، تجھ راہ کا مارا ہوا