مارنا کے معنی
مارنا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ مار + نا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان کا لفظ |مارن| سے |مارنا| بنا۔ اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے اور تحریراً ١٥١٨ء کو "لطفی، بیدری (اردو، کراچی، اکتوبر)" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بید لگانا","تھپڑ لگانا","چوٹ لگانا","حملہ کرنا","زدوکوب کرنا","سزا دینا ڈانٹنا","سہی کرنا","ضرب لگانا","مکے مارنا","کوڑے لگانا"]
مارَن مارْنا
اسم
فعل متعدی
مارنا کے معنی
"کوڑوں سے مجھے مارتا ہے" (١٩٨٨ء، اپنا اپنا جہنم، ٢٨٩۔)
"ان کے منہ پر اتنا مارا اتنا مارا کہ منہ سوج کر کیا ہو گیا" (١٩٨٤ء، طوبٰی، ٢٧٣۔)
"کچھ ملازم دوڑے دوڑے آئے اور انہوں نے سانپ مار دیا" (١٩٨٤ء، طوبی، ٣٠۔)
داد دیجیے ظفر اس غمزۂ پنہائی کی جس کو مارا اسے کافر نے جتا کر مار (١٨٤٥ء، کلیات ظفر، ٤١:١)
مدعی کوئی بھی میدان سخن میں نہ رہا تو نے کیا معرکہ اے داغ سخنور سارا (١٨٧٨ء، گلزارِ داغ، ٥٧۔)
"مار دیا تو نے ظالم، سارا کام خراب کر دیا" (١٩٧٨ء، جانگلوس، ٤٥٤۔)
"چلتا گھوڑا دے کر فرزین بند کی بازی ماری. بادشاہ نے شہ دے کر اونٹ مارنے کی خواہش کی" (١٩٧٥ء، پرماوت (ترجمہ) سہ ماہی، اردو، ١٩٧٥ء، ٢٠٢:١،٥۔)
"قواعد کو چھوڑ، صفوں کو توڑ پھوڑ، سب کے سب گھوڑے مار کر ادھر بھاگے" (١٨٨٧ء، سخندان فارس، ١٥٢:٢۔)
طائر نامہ بر اپنا تو نہ ہو اے تقدیر آج سنتا ہوں کوئی اس نے کبوتر مارا (١٨٧٨ء، گلزارِ داغ، ٥٦۔)
"ابھی تک آگ میں نہیں کودا لیکن ابھی سے اس فکر میں ہے کہ مرکزی ہیڈکوارٹر سے مزید سامانِ جنگ مارے" (١٩٧٠ء، قافلہ شہیدوں کا (ترجمہ)، ٥٤:١)
"جی چاہا شیشے کا کنٹر کمرے کے دروازے پر زور سے دے مارا" (١٩٧٨ء، جانگلوس، ٣٤٩۔)
شوق سے جان جہاں پستول مار جان کی قیمت ہی کیا ہے دس ہزار (١٩٧٢ء، جنگ، کراچی، ١٣اکتوبر، ٤۔)
نہ مارا آپ کو جو خاک ہوا اکسیر بن جانا اگر پارے کو اے اکسیر گر مارا تو کیا مارا (١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ٦٦۔)
مجھے جو مارتا ہے آن کر سنگ اسے دیتا ہوں پھل ہوتا نہیں تنگ (١٨١٤ء، غرائب رنگین،٥۔)
"گھی سے مرچ کی تیزی مار دی ہوتی ہے" (١٩٠١ء، فرہنگ آصفیہ، ٢٥٨:٤۔)
"ٹریننگ کالج کا کام، دوسری طرف ایسوسی ایشن کے پروگرام کی مصروفیت، ان تمام چیزوں نے مار لیا ہے" (١٩٤٤ء، حرفِ آشنا، ٩٧۔)
خوب روکا شکایتوں سے مجھے تو نے مارا عنایتوں سے مجھے (١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ١٨٦۔)
"میری چیخوں پر چیخیں مارنے لگی" (١٩٨٨ء، نشیب، ٣٩٣۔)
ڈاڑھی بنا کے شیخ جی مونچھیں سوار کے جاتے کہاں ہو یہ تو کہو ہم کو مار کے (١٩٢١ء، دیوان ریختی، ٧٥۔)
اس غم میں کہاں جنگ کا یارا شہ دیں کو اکبر کے جواں مرنے نے مارا شَہ دیں کو (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٣٨٩:٢۔)
مارنا دل کو سمجھتا ہوں جہاد اکبر وہی غازی ہے بڑا جس نے یہ کافر مارا (١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٥٧۔)
کوہکن نقاش یک تمثال شیریں تھا اسد سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا (١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٤٩۔)
"عرب بھوکا تو تھا ہی بڑے بڑے نوالے مارنے لگا" (١٩٢٥ء، حکایاتِ لطیفہ، ٢٦:١)
مجھ سے ہے اور نہیں سخن مجھ سے تیرے طرز خطاب نے مارا (١٩٤٠ء، نوبہاراں، ٢٤۔)
"اگر ذرا ہمت کامیاب کو اور آگے بڑھاتا تو دشمن کو مار ہی لیتا" (١٨٨٠ء، نیرنگِ خیال، ٩٢۔)
"سینے پر ہاتھ مار کر بولی، اسے میں نے قتل کیا ہے" (١٩٧٨ء، جانگلوس، ٤٥۔)
"نماز نہ پڑھنے والے بچوں پر سختی کرنے اور انہیں مارنے کا حکم ہے" (١٩٨٤ء، طوبٰی، ٢٧٥۔)
"لمبی لمبی ٹانگیں مارتا ریسٹ ہاؤس کے خانساماں کے پاس گیا" (١٩٨٨ء، جب دیواریں گریہ کرتی ہیں، ٩٢۔)
آنکھوں آنکھوں میں ہمیں اس بت بیدرد نے آہ تیغ سے ناز کے خنجر سے ادا کے مارا (١٨٤٥ء، دیوان ظفر، کلیات، ٤١:١)
"نشہ کر کے پنڈ میں پڑھکیں مارتے پھر رہے تھے" (١٩٧٨ء، جانگلوس، ٦٠٢۔)
"اس نے شوخی سے آنکھ ماری" (١٩٧٨ء، جانگلوس، ٦٢٦۔)
دشمن کو ہوا لگ گئی اس کی جو قضارا سمجھا وہ کہ شہپر ملک الموت نے مارا (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٦٠٢:٢۔)
"ہائے میں قربان! تجھے پانے کے بعد بھی کوئی چھوڑ سکتا ہے ایسی چاندنی کی طرح لشکارے مارتی ہوئی سوہنی کو اس نے شوخی سے نوراں کی کمر میں چٹکی بھری" (١٩٧٨ء، جانگلوس، ٥٩٢۔)
ہے زراعت جو پانی نے ماری ہو گئی آب خست ترکاری (١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٠١٨۔)
زیر خنجر بھی ضبطِ عشق رہا دم نہ اس بے گناہ نے مارا (١٨٧٨ء، ذوق، دیوان، ٥٨۔)
نیمچہ یار نے جس وقت بغل میں مارا جو چڑھا منہ اسے میدان اجل نے مارا (١٩٥٤ء، ذوق، دیوان، ٥٨۔)
جال زلف سیاہ نے مارا تیر کا فرنگاہ نے مارا (١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٢٣۔د)
دل لگاوٹ نے کر دیا بسمل اور پھر اجتناب نے مارا (١٩٠٥ء، داغ، انتخاب دیوان، ١٩۔)
پھر گیا روزِ حشر دل مجھ سے مجھ کو مل کر گواہ نے مارا (١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٢٣۔)
آسماں سے ترے کوچے میں بہت زور ہوے نہ ہٹے ایک قدم ہم نے جو لنگر مارا (١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٥٧۔)
چین سے گھر میں پڑے کرتے تھے باتیں دل سے وحشت عشق نے دے ہم اٹھا کے مارا (١٨٤٥ء، دیوان ظفر، ٤٠:١۔)
دہان و گیسو کا تیرے مارا نہ منہ سے بولے نہ سر سے کھیلے (١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ٢٤٦۔)
کیا کہیں خاک کہیں عشوہ گروں نے مارا جان کر سیدھا سا بیچارہ مسلمان ہم کو (١٩٠١ء، فرہنگ آصفیہ، ٢٦٠:٤۔)
کس نے افسوں آج مارا تھا تخت اس جا پہ کیوں اوتارا تھا (١٨٥٧ء، بحرالفت،١٩۔)
ڈالنی پہلے تو گردن میں کمند اور پھر اس کا وہ جھٹکا مارنا (١٨٢٦ء، معروف، دیوان، ٣٢۔)
آ جگانا خفتگانِ خاک کو کس سے تم سیکھے ہو چھاپا مارنا (١٨٢٦ء، معروف، دیوان، ٣٢۔)
"منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے" (١٩٨٨ء، نشیب، ٢١٤۔)
ہر سمت پھینکے جائے تو ہمیں خدنگ سعی شاید کبھی تو مار رہیں گے نشانے کو (١٧٩٥ء، قائم، دیوان، ١٢٤۔)
بد بلا ہے یہ نفس امارہ اس نے مجھ کو ہلاک کر مارا (١٩١٢ء، نذیر احمد، مناجات، ٢۔)
"لوگو تم میں سے کوئی اپنی بی بی کو غلام کا سا مارنا نہ مارے" (١٩٠٦ء، الحقوق والفرائض، ٥٨:١۔)
شاعری
- بھگانا بہر وضع دونوں کے تیں
دے مارنا جیو سوں خوب نیں - جلانا مارنا اک بات کیا ادنیٰ اشارہ ہے
زباں میں معجزہ ہے آپ کی انکھوں میں جادو ہے - چاہیے یاں اپنے جی کا مارنا
چاہنا ہے اور پتّا مارنا - یو ہے خونی مارنا ہے اس روا
دل تپایا شہ کے ناحق کر توا - ہیں گیں باز ایک کھلاڑی بڑے ہی قہہ
آساں نہیں ہے مارنا کچھ ان کی گوٹ کا - آ جگانا خفتگان خاک کو
کس سے تم سیکھے ہو چھاپا مارنا - عرضِ احوال وہ کرے کیوں کر
جس کو دم مارنا مجال نہیں - ٹوٹی جوتی سے مری رنڈیاں رکھتا پھر تو
ایسا جھک مارنا اور ہم سے چھپانا کیا خوب
محاورات
- آپ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا
- آپ اپنے پاؤں میں کلہاڑی مارنا
- آپ کو دے دے مارنا
- آر کرنا۔ لگانا یا مارنا
- آسمان ہلا دینا یا ہلا مارنا
- آسن مارنا
- آسن مارنا یا مار کے بیٹھنا
- آفت توڑ مارنا یا توڑنا
- آلتی پالتی مارنا
- آنکس مارنا