مجنون

{ مَج + نُون }

تفصیلات

iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور صفت نیز اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

["جنن "," مَجْنُون"]

اسم

صفت ذاتی ( واحد )

اقسام اسم

  • جمع استثنائی : مَجْنُونِین[مَج + نُو + نِین]
  • جمع غیر ندائی : مَجْنُونوں[مَج + نُو + نوں (و مجہول)]

مجنون کے معنی

١ - جس پر جن یا آسیب وغیرہ کا سایہ ہو۔

"میں نے کہا کہ میں جن بھی ہوں اور اور مجنون بھی۔" (١٩٨٩٧، ریگ رواں، ٢١)

٢ - جس کو جنون ہو، دیوانہ، پاگل، خبطی، سودائی۔

"جلدی کی بھی ایک ہی کہی میاں مجنوں جانتے ہو رات کے تین بجنے والے ہیں، تھوڑی دیر میں آپ کے والد صاحب تہجد کے لیے اٹھنے ہیں۔" (١٩٨٦ء، بیلے کی کلیاں، ٥٦)

٣ - جنونی، متشدد (اسٹین گاس، پلیٹس)۔

 لیلائے وزارت کی ادا دیکھ کر شہباز مجنونِ سیاست کا یہ انداز تو دیکھ (١٩٨٢ء، ط ظ، ٣٨)

٤ - (عرب کی پرانی کہانیوں میں) قیس عامری کا لقب جو لیلٰی کا عاشق کی دیوانگی کے باعث اس نام سے مشہور ہوا۔

"کون سا اس عورت کے پیچھے وہ مجنوں ہو گیا تھا۔" (١٩٨٩ء، خوشبو کے جریرے، ١١٣)

٥ - عاشق، شیدا، والہ و فریفتہ، دل دادہ۔

"وہ مغل شہزادوں کو سیاست کی الجنھوں میں مجنوں دیکھ سکتا ہے۔" (١٩٢٢ء، انار کلی، ٤٠)

٦ - [ مجازا ] کسی مقصد یا کام کے لیے خود کو پورے طور پر وقف کر دینے والا، کسی کام میں مستغرق۔

 جس گلستان میں ہوا میرے جنوں کی چل جائے بید کی طرح ہر اک نخل ہو جنوں پیدا (١٨٧٠ء، دیوان اسیر، ٤٦:٣)

٧ - ایک قسم کا بید، ایک درخت کا نام جس کی شاخیں جھکی ہوئی ہوتی ہیں، بید مجنوں۔

مترادف

پاگل, دبلا

مرکبات

مجنون پن