مخمل کے معنی
مخمل کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ مَخ + مَل }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق |اسم| ہے اردو میں بطور اسم مستعمل ہے سب سے پہلے ١٦١١ء کو "قلی قطب شاہ" کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(اَخَملَ ۔ روئیں دار ہونا)","(گل) ایک پھول جو چولائی کے پودے پر لگتا ہے","ایک قسم کا کپڑا جس کی ایک طرف نہایت نرم اور روئیں دار ہوتی ہے","ایک نہایت نرم اور ملائم کم رُوئندار ریشمی یا سُوتی ریشمی کپڑے کا نام","ایک نہایت نرم اور ملائم کم رُوئندار ریشمی یا سُوتی ریشمی کپڑے کا نام","بعض شعرا نے مذکر بھی باندھا ہے","روئیں دار ہونا","عربی میں مُخمل ہے"]
خمل مَخْمَل
اسم
اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : مَخْمَلوں[مَخ + مَلوں (و مجہول)]
مخمل کے معنی
"ذرا اس کے سرہانے کو دیکھئے مخمل کا کیسا خوب صورت ڈیزائن ہے۔" (١٩٩٢ء، افکار، کراچی، اگست، ٥١)
سر پر آکاش کا منڈل ہے دھرتی پہ سہانی مخمل ہے دن کو سورج کی محفل ہے شب کو تاروں کو سبھا بابا (١٩٣٧ء، نغمۂ فردوس، ٢٩)
بدل مخمل یا ستی اوس کا صفا و نرم رنگیں ہے گویا سر تا قدم بانات سلطانی ہے وہ لونڈا (١٧١٨ء، دیوان آبرو، ٨)
"اول اول ان پر ملائم روئیں دار کھال ہوتی ہے جو مخمل کے نام سے مشہور ہے۔" (١٩٣٢ء، عالم حیوانی، ٢٣٩)
گل مخمل پہ بیداری ہے نایاب جہاں دیکھو تو آلودہ ہے خواب (١٨٨٨ء، طلسم ہوش ربا، ٦٨٤:٣)
شاعری
- آغوش میں میں بالش مخمل کو کیوں کے لوں
یہ وہ بغل ہے جس میں تریک عمر سوچکا - مرے سر کو تجھ آستاں کی خشت
بہ از بالش مخمل ، یاعلی - سینہ جوں آئنہ شفاف شکم ایسا صاف
جس میں مخمل کی شکن کی سی پڑی ستھری بٹ - سو یک گل سوں ہوے بھاری چلی تو رکھ قدم نازک
بدن گورا‘ دھڑی لب پر خمی کا قد جوتی مخمل - گئی ہے خواب مخمل کی ترے پاؤں کی سرخی سوں
کہ جس کے عکس سوں رنگیں ہوا ہے نقش قالی کا - ترے پانواں کی نرمی کی اگر شہرت ہو عالم میں
وہیں آوے قدم بوسی کوں مخمل خواب سوں اٹھ کر - ہمارا خواب غفلت تکیہ گاہ مغفرت ٹھہرا
بروز حشر بن کر خواب مخمل جس کی مسند کا - خوش قماشی ہے موجب غفلت
ہم نے دیکھا ہے خواب مخمل میں - کیوں کر یہاں لطافت پوشاک یار ہو
مخمل کے فرش خواب میں دامن اٹک گیا - بہار جا کے جو آتا ہے اس خزاں کا وقت
تو موگرا ہے نہ چنپا نہ سیوتی مخمل
محاورات
- (چکنایا) چکنیا فقیر مخمل کا لنگوٹ
- خارشتی کتیا مخمل کی جھول