مخمور
{ مَخ + مُور }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق |صفت| ہے اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٦١١ء کو"قلی قطب شاہ" کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔
["خمر "," خَمْر "," مَخْمُور"]
اسم
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
مخمور کے معنی
١ - نشے میں چور، مست، متوالا، مدہوش، شراب پیا ہوا۔
"شراب کی ایک بوتل کے بعد وہ بالعموم اتنی مخمور ہو جاتی کہ اسے نیند آ جاتی۔" (١٩٨٥ء، فنون، لاہور، مئی، جون، ٤١١)
٢ - وہ شرابی جسے شراب کی طلب ہو، وہ شرابی جو نشے کے سرور کے بعد خمار کی کیفیت میں ہوں، وہ جس کا نشہ اتر رہا ہو اور طلب ہو، صاحب خمار۔
تقصیر کم نگاہی ساقی ہے اور کیا اس انجمن میں گر کرئی مخمور رہ گیا (١٨٢٤ء، مصحفی، د، (انتخاب رامپور)، ٣٤)
٣ - [ مجازا ] اپنی دھن میں سرشار، مگن۔
"اہل سائنس جس نشے سے مخمور تھے وہ اترنے لگا۔" (١٩٩٧ء، قومی زبان، کراچی، اگست، ٣٢)
مترادف
چور, متوالا, مست