مرتے کے معنی
مرتے کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ مَرْ + تے }
تفصیلات
iہندی زبان س ماخوذ |صفت| ہے۔ اردو میں اصلی حالت اور معنی میں ہی عربی رسم الخط میں بطور صفت مستعمل ہے۔ "فرہنگ آصفیہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بجائے مرتا حروف مغیرہ کے بعد","جمع مرتاکی"]
مرنا مَرْتے
اسم
صفت ذاتی ( مذکر - جمع )
اقسام اسم
- واحد : مَرْتا[مَر + تا]
مرتے کے معنی
١ - مرتا بمعنی مرتا ہوا کی جمع۔ (فرہنگ آصفیہ)
"مرتے وقت ذات اپنے اندر حواس اور قویٰ کو جمع کر لیتی ہے۔" (١٩٤٥ء، تاریخ ہندی فلسفہ (ترجمہ)، ٨٣:١)
٢ - حروف مغیرہ کے آ جانے سے الف کے یائے مجہول سے بدلے جانے کی صورت۔ (فرہنگ آصفیہ)
٣ - صفت "مرنے" کی حالت میں، تراکیب میں مستعمل۔
مرتے کے جملے اور مرکبات
مرتے مرتے, مرتے دم تک
شاعری
- بے اُس کے رگ کے مرتے گرمی عشق میں تو
کرتے ہیں آہ جب تک تب تک ہی کچھ ہوا ہے - مرتے ہی سُنا اُن کو جنھیں دل لگی کچھ تھی
اچھا بھی ہوا کوئی اس آزار سے ابتک - مرتے ہیں اس کے واسطے یوں تو بہت ولے
کم آشنا ہیں طور سے اس کام جاں کے لوگ - اکیسیوں صدی کے لیے ایک نظم
سَمے کے رستے میں بیٹھنے سے
تو صرف چہروں پہ گرد جمتی ہے
اور آنکھوں میں خواب مرتے ہیں
جن کی لاشیں اُٹھانے والا کوئی نہیں ہے!
ہماری قسمت کے زائچوں کو بنانے والا کوئی ہو شاید
پران کا مطلب بتانے والا کوئی نہیں ہے!
وہ سارے رسّے روایتوں کے کہ جن کی گرہیں کَسی ہوئی ہیں
ہمارے ہاتھوں سے اور پاؤں سے لے کے خوابوں کی گردنوں تک!
ہماری رُوحوں میں کُھبتے جاتے ہیں
اور ہم کو بچانے والا‘ چھڑانے والا کوئی نہیں ہےِ
زباں پہ زنجیر سی پڑی ہے
دلوں میں پھندے ہیں
اور آنکھوں میں شامِ زنداں کی بے کَسی ہے
چراغ سارے بجھے پڑے ہیں جلانے والا کوئی نہیں ہے!
مرے عزیزو‘ مجھے یہ غم ہے
جو ہوچکا ہے بہت ہی کم ہے
سَمے کے رَستے میں بیٹھے رہنے کے دن بھی اَب ختم ہورہے ہیں
بچے کھُچے یہ جو بال و پَر ہیں
جو راکھ داں میں سُلگنے والے یہ کچھ شرر ہیں
ہمارے بچّوں کے سر چھپانے کو جو یہ گھر ہیں
اب ان کی باری بھی آرہی ہے
وہ ایک مہلت جو آخری تھی
وہ جارہی ہے…
تو اس سے پہلے زمین کھائے
ہمارے جسموں کو اور خوابوں کو
اور چہروں پہ اپنے دامن کی اوٹ کردے
یہ سرد مٹی جو بُھربُھری ہے
ہماری آنکھوں کےزرد حلقے لہُو سے بھردے!
مرے عزیزو چلو کہ آنکھوں کو مَل کے دیکھیں
کہاں سے سُورج نکل رہے ہیں!
سمے کے رستے پہ چل کے دیکھیں - مرتے تو شہیدانِ محبت بھی ہیں امجد
جاتے ہیں مگر سوئے عدم اور طرح سے - میرے مرتے دم جو رویا وہ بڑی تسخیر تھی
آب چشم یار آب چاہ بابل ہوگیا - مرتے ہیں جو یائے عزت آبروے قتل میں
خنجر قاتل میں شاید آبروکی آب ہے - بید سا کانپتا تھا مرتے وقت
میر کو رکھیو مجنوں کے تکیے - پھرتے ہی نگاہیں قاتل کی گردن کو چھری پر دھرتے ہیں
جو بات پہ مرنے والے ہیں اس بانکپنے سے مرتے ہیں - ہم تو مرتے ہیں اس گدائی پر
تھوکتے کب ہیں بادشائی پر
محاورات
- جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔ سسک سسک دم بھرتے ہیں
- چمار کے کوسے سے ڈھور نہیں مرتے
- چماروں کے کوسے ڈھور نہیں مرتے
- دادا مرتے ہیں تو بھوج کرتے ہیں
- گھر سے مرتے دم نکلنا
- مرتے جیتے بسر ہونا
- مرتے دم تک
- مرتے مر گئے چونچلوں سے نہ گئے
- مرتے مر گیا
- مرتے مرتے