مزا کے معنی
مزا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ مَزا }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٧٢ء کو "دیوان عبداللہ قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["دیکھئے: مزہ","وہ کیفیت جو کسی چیز کے چکھنے سے محسوس ہو"]
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : مَزے[مَزے]
- جمع : مَزے[مَزے]
مزا کے معنی
سیر چمن کا لطف ہے صحبت خاص کا مزا تازم مشام جاں بھی ہو، دل بھی ہولاتِ آشنا (١٩٢٢ء، مطلع انوار، ٤٥)
شاب آغاز تھا فضل خدا سے طبیعت میں مزا تھا ابتدا سے (١٨٦١ء، الف لیلہ نومنظوم، شایاں، ٣٩٩:٢)
مزا برسات کا چاہو تو بیٹھو میری آنکھوں میں سفیدی ہے سیاہی ہے شفق ہے ابر و باراں ہے (نامعلوم (فرہنگ آصفیہ))
دیکھ لے گا یہ مزا حشر میں جو جائے گا آپ جو حکم کریں گے وہی ہو جائے گا (١٨٨٤ء، آفتاب داغ، ٣٠)
مزا english meaning
tastesavoursmackrelish; delightpleasureenjoyment; anything agreeable to the palate or to the minddeliciousnessenjoymentflavourfunrelish
شاعری
- مزا دکھادیں گے بے رحمی کا تری صیّاد
گر اضطراب اسیری نے زیر دام لیا - گرچہ سردار مزوں کا ہے امیری کا مزا
چھوڑ لذّت کے تئیں لے تو فقیری کا مزا - اے کہ آزاد ہے ٹک چکھ نمکِ مرغ کباب
تاتو جانے کہ یہ ہوتا ہے اسیری کا مزا - ہم تو گمراہ جوانی کے مزوں پر ہیں میر
حضرتِ خضر کو ارزانی ہو پیری کا مزا - مزا دکھادیں گے بیرحمی کا تری ضیاد
گر اضطراب اسیری نے زیر دام لیا - اُدھر کھلی مری چھاتی ادھر نمک چھڑکا
جراحت اس کو دکھانے کا اب مزا نہ رہا - رہتا ہے ہڈیوں سے مزے جو ہما لگا
کچھ دردِ عاشقی کا اُسے بھی مزا لگا - جو کھولوں سینہ مجروح تو نمک چھڑکے
جراحت اُس کو دکھانے کا کچھ مزا بھی ہے - میر خلاف مزاج محبت موجب تلخی کشیدن ہے
یاد موافق ملجاوے تو لطف ہے چاہ مزا ہے عشق - ایک مدت بعد ملنے کا مزا کیا چیز ہے
تو کبی مجھ سے ذرا مل کر یہ اندازہ لگا
محاورات
- آسمان پر دماغ (یا مزاج) ہونا
- آسمان پر مزاج ہونا
- آنولے کا کھایا بعد میں مزا دیتا ہے
- آنکہ شیراں راکندہ روباہ مزاج۔ احتیاج است احتیاج است احتیاج
- اب جینے کا کچھ مزا (سواد) نہیں
- باپ نہ دادے سات پشت حرامزادے
- بڑے آدمی نے دال کھائی سادہ مزاج ہے۔ غریب نے دال کھائی تو کہا کنگال ہے
- بکری جان سے گئی کھانے والے کو مزا نہ آیا
- بیس بنڈیوں کا مزا چکھنا
- پرانے چاولوں میں مزا ہوتا ہے