معمور کے معنی
معمور کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ مَع + مُور }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق صفت ہے، اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(عَمَرَ ۔ آباد ہونا)","آباد ہونا","اچھی حالت میں","افراط سے","بسا ہوا","بھرا پُرا","بھرا گیا","بھرا ہوا"]
عمو مَعْمُور
اسم
صفت ذاتی ( واحد )
معمور کے معنی
سیم و زر سے کسی انساں کے خزانے معمور اور ہے کوئی یہاں نان جویں سے مجبور (١٩٩٧ء، کہتے ہیں تجھے دانشمنداں، ٦٨٣)
"جواہری فلسفہ نے معمور کیا اور خالی یعنی خلا کے درمیان تفریق کی۔" (١٩٥٧ء، مقدمۂ تاریخ، سائنس (ترجمہ) ١٩٢:١)
"یہ فضا زندگی کی محبت سے معمور ہے۔" (١٩٩٥ء، قومی زبان، کراچی، نومبر،٣٥)
"وہاں جو دیکھتا ہوں مکان بند پھاٹک معمور، کافی چڑیا تک نہیں۔ (١٩١٥ء، سجاد حسین، دھوکا، ٤٧٣)
معمور کے مترادف
آباد, بھرا
آباد, بند, بھرپور, بھرپُور, بہت, پُر, گلزار, گُلزار, لبالب, لبریز, مقفل
معمور english meaning
abounding (in)abundantcultivatedflourishingfullfull (of)inhabitedpopulousprosperousprosperous delightfulrepletereplete (with)
شاعری
- قسمت تو دیکھ شیخ کو جب لہر آئی تب
دروازہ شیرہ خانے کا معمور ہوگیا - پڑگیا گنبد افلاک میں قندھار کا غل
خاور و باختر اس شور سے معمور ہوا - ساقیا بزم نہیں آج خلل سے خالی
جام کچھ اورونسے دیتا ہے تو معمور ہمیں - رکھ تن کو مجاہدہ میں نت چور
اور من کو مشاہدہ میں معمور - خوبی بخت سے ہم یار کے گھر کب پہنچے
جب کہ دربان نے دروازہ کو معمور کیا - چھُپ کے آنا ہے تو آ ، رات چلی جاتی ہے
لوگ سب سوگئے دروازے بھی معمور ہوئے - خوشیاں سوں آج جاں تاں سب جہاں معمور دِستا ہے
نبی کی عید سوری کی کلا میں نور دِستا ہے - مرا شہر لوگاں سوں معمور کر
رکھیا جس توں دریا میں من یاسمیع - تجہ ناز کے بیداد تھی ویراں ہوا ہے کا نورد
تجہ لب شکر کے قول تھی معمور بنگالا ہوا - خوشیاں سوں آج جاں تاں سب جہاں معمور دستا ہے
نبی کی عید سوری کی کلا میں نور دستا ہے
محاورات
- پیمانہ (معمور) لبریز ہونا
- دروازہ معمور ہونا
- گھر معمور ہونا