منظر کے معنی
منظر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ مِن + ظَر }نظارہ
تفصیلات
١ - عینک، دُور بین؛ تراکیب میں مستعمل۔, m["اونچی عمارت","بلند عمارت","تماشا گاہ","جائے نظر","حد نظر","حدِ نگاہ","دیکھنے کا سوراخ","سیر گاہ","مقام نظر","نظر گاہ"],
اسم
اسم نکرہ, اسم
اقسام اسم
- لڑکا
منظر کے معنی
١ - عینک، دُور بین؛ تراکیب میں مستعمل۔
منظر حسین، منظر جہاں
منظر کے جملے اور مرکبات
منظر طیفی
منظر english meaning
((Plural) مناظر mana|zir) Scene(Plural) مناظر mana`zir(Plural) مناظر mana|zira sightcountenancefacelandscapelooksscapescenesceneryscenery [A~???]sightspectacleviewManzir
شاعری
- میخانہ وہ منظر ہے کہ ہر صبح جہاں شیخ
دیوار پہ خورشید کا مستی سے سر آوے - سارے منظر ایک جیسے‘ ساری باتیں ایک سی
سارے دن ہیں ایک سے اور ساری راتیں ایک سی - ہمیشہ کے لئے مجھ سے بچھڑ جا
یہ منظر بارہا دیکھا نہ جائے - لُٹی جو فصلِ بہاراں عجیب منظر تھا
لپٹ کے رو دیئے تنکے بھی آشیانے سے - منظر بہاراں سے لطف اٹھانے والے دیکھ
سانحہ تبسم کا سہہ گئی کلی تنہا - (دلدار بھٹی کے لیے ایک نظم)
کِس کا ہمدرد نہ تھا‘ دوست نہ تھا‘ یار نہ تھا
وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا
قہقہے بانٹتا پھرتا تھا گلی کوچوں میں
اپنی باتوں سے سبھی درد بُھلا دیتا تھا
اُس کی جیبوں میں بھرے رہتے تھے سکّے‘ غم کے
پھر بھی ہر بزم کو گُلزار بنا دیتا تھا
ہر دُکھی دل کی تڑپ
اُس کی آنکھوں کی لہو رنگ فضا میں گُھل کر
اُس کی راتوں میں سُلگ اُٹھتی تھی
میری اور اُس کی رفاقت کا سفر
ایسے گُزرا ہے کہ اب سوچتا ہوں
یہ جو پچیس برس
آرزو رنگ ستاروں کی طرح لگتے تھے
کیسے آنکھوں میں اُتر آئے ہیں آنسو بن کر!
اُس کو روکے گی کسی قبر کی مٹی کیسے!
وہ تو منظر میں بکھر جاتا تھا خُوشبو بن کر!
اُس کا سینہ تھا مگر پیار کا دریا کوئی
ہر دکھی روح کو سیراب کیے جاتا تھا
نام کا اپنے بھرم اُس نے کچھ ایسے رکھا
دلِ احباب کو مہتاب کیے جاتا تھا
کوئی پھل دار شجر ہو سرِ راہے‘ جیسے
کسی بدلے‘ کسی نسبت کا طلبگار نہ تھا
اپنی نیکی کی مسّرت تھی‘ اثاثہ اُس کا
اُس کو کچھ اہلِ تجارت سے سروکار نہ تھا
کس کا ہمدرد نہ تھا‘ دوست نہ تھا‘ یار نہ تھا
وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا - فنا کی راہیں بقا کے رستوں کی ہم سفر ہیں
ہتھیلیوں پہ جو سَج کے نکلے ہیں
کیسے سر ہیں!
ہر ایک آندھی کے راستے میں جو معتبر ہیں
یہ کیا شجر ہین!
یہ کیسا نشہ ہے جو لہو میں سرور بن کے اُتر گیا ہے!
تمام آنکھوں کے آنگنوں میں یہ کیسا موسم ٹھہر گیا ہے!
وفا کی راہوں میں جلنے والے چراغ روشن رہیں ہمیشہ
کہ اِن کی لَو سے جمالِ جاں کا ہر ایک منظر سنور گیا ہے
گھروں کے آنگن ہیں قتل گاہیں‘ تمام وادی ہے ایک مقتل
چنار شعلوں میں گھر گئے ہیں سُلگ رہا ہے تمام جنگل
مگر ارادوں کی استقامت میں کوئی لغزش کہیں نہیں ہے
لہو شہیدوں کا کررہا ہے جوان جذبوں کو اور صیقل
جو اپنی حُرمت پہ کٹ مرے ہیں
وہ سَر جہاں میں عظیم تر ہیں
لہُو سے لکھی گئیں جو سطریں
وُہی اَمر تھیں‘ وُہی اَمر ہیں - پروین کے ’’گِیتو‘‘ کے لیے ایک نظم
ہاں مری جان‘ مِرے چاند سے خواہر زادے!
بُجھ گئیں آج وہ آنکھیں کہ جہاں
تیرے سپنوں کے سِوا کُچھ بھی نہ رکھا اُس نے‘
کِتنے خوابوں سے‘ سرابوں سے الُجھ کر گُزری
تب کہیں تجھ کو‘ ترے پیار کو پایا اُس نے
تو وہ ‘‘خُوشبو‘‘تھا کہ جس کی خاطر
اُس نے اِس باغ کی ہر چیز سے ’’انکار‘‘ کیا
دشتِ ’’صد برگ‘‘ میں وہ خُود سے رہی محوِ کلام
اپنے رنگوں سے تری راہ کو گلزار کیا
اے مِری بہن کے ہر خواب کی منزل ’’گِیتو‘‘
رونقِ ’’ماہِ تمام‘‘
سوگیا آج وہ اِک ذہن بھی مٹی کے تلے
جس کی آواز میں مہتاب سفر کرتے تھے
شاعری جس کی اثاثہ تھی جواں جذبوں کا
جس کی توصیف سبھی اہلِ ہُنر کرتے تھے
ہاں مِری جان‘ مِرے چاند سے خواہر زادے
وہ جِسے قبر کی مٹّی میں دبا آئے ہیں
وہ تری ماں ہی نہ تھی
پُورے اِک عہد کا اعزاز تھی وہ
جِس کے لہجے سے مہکتا تھا یہ منظر سارا
ایسی آواز تھی وہ
کِس کو معلوم تھا ’’خوشبو‘‘ کی سَفر میں جس کو
مسئلہ پُھول کا بے چین کیے رکھتا ہے
اپنے دامن میں لیے
کُو بَکُو پھیلتی اِک بات شناسائی کی
اِس نمائش گہ ہستی سے گُزر جائے گی
دیکھتے دیکھتے مٹی مین اُتر جائے گی
ایسے چُپ چاپ بِکھر جائے گی - آنکھ اور منظر کی وسعت میں چاروں جانب بارش ہے
اور بارش مین‘ دُور کہیں اِک گھر ہے جس کی
ایک ایک اینٹ پہ تیرے میرے خواب لکھے ہیں
اور اُس گھر کو جانے والی کچھ گلیاں ہیں
جن میں ہم دونوں کے سائے تنہا تنہا بھیگ رہے ہیں
دروازے پر قفل پڑا ہے اور دریچے سُونے ہیں
دیواروں پر جمی ہُوئی کائی میں چھُپ کر
موسم ہم کو دیکھ رہے ہیں
کتنے بادل‘ ہم دونوں کی آنکھ سے اوجھل
برس برس کر گُزر چُکے ہیں‘
ایک کمی سی‘
ایک نمی سی‘
چاروں جانب پھیل رہی ہے‘
کئی زمانے ایک ہی پَل میں
باہم مل کر بھیگ رہے ہیں
اندر یادیں سُوکھ رہی ہیں
باہر منظر بھیگ رہے ہیں - آج بہت دن بعد سُنی ہے بارش کی آواز
آج بہت دن بعد کسی منظر نے رستہ روکا ہے
رِم جِھم کا ملبوس پہن کر یاد کسی کی آئی ہے
آج بہت دن بعد اچانک آنکھ یونہی بھر آئی ہے
محاورات
- رواق و منظر چشم من آشیانئہ تست۔ کرم نما و فردو آکہ خانہ خانہ تست