موتی
{ مو(ومجہول) + تی }
تفصیلات
iپراکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی کے ساتھ عربی رسم الخط میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے١٥٠٣ء کو "نو سرہار" میں مستعمل ملتاہے۔
[""]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : موتِیوں[مو (و مجہول) + تِیوں(ومجہول)]
موتی کے معنی
"کیا اب موتی کی تجارت کا ارادہ ہے" (١٩٩٠ء، کالی حویلی، ٢٠٢)
"اس نے چھوٹے موتیوں کی ایک زنجیر دکھلا کر واپس نہیں لی" (١٩٩٢ء، اختر حسین رائے پوری کے افسانے ٤٥)
"نہ جانے کتنے موتی، پھول اور ستارے افق در افق جگما رہے تھے" (١٩٩٠ء، رئیس امروہوی من اور شخیصت، ٥٨)
آنکھ ملانے سے وہ کتراتے ہیں کہ آنسوئوں کے وہ موتی جنہیں وہ کتنی دیر سے۔۔۔چھپائے بیٹھے ہیں کہ چھلک کر باہر نہ آجائیں۔ (١٩٩١ء، سفر گشت، سفر نامہ امریکہ، ٣٥٤)
"لیکن اللہ کی قدرت وہ ان سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے چنانچہ انہیں پچکار کر |موتی موتی" کہتا ہے، مگر وہ اسکی ٹانگ ہی نہیں چھوڑتے" (١٩٩٠ء، جررم ظریفی، ٥٧)
"یہ ییغمبر کی شان ہے کہ وہ محض اور اسکی دوا ہی نہیں بتاتا بلکہ علاج کی پوری تفصیل بیان کر دیتا ہے اور حکمت و دانش کے موتی کسی اجر اور بدلے سے بے پروا ہو کر دنیا کے دامن میں ڈالتا جاتا ہے"۔ (١٩٨٨ء، انبیائے قرآن، ٧٧)
"وہ شبنم کے موتیوں سے تخیل کی لڑی پروتا ہے" (١٩٩٠ء، سرودنو، ٤٥)
اس میں ذلیل ہوئیں گے دو چار جان لو موتی کی طرح رکھے خدا سب کی آبرو (١٨٧٩ء، جان صاحب، ٢٩٤)
مترادف
گوہر, نگ[1]
مرکبات
موتی کا ہار, موتی کٹی, موتی کی آب, موتی کی سیپی, موتیوں جیسے, موتی مالا, موتی محل, موتی مسجد, موتی کی لڑی