مولا
{ موَ (ولین) + لا }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم |مولی| کا متبادل املا ہے اردو میں اپنے اصل معنی کے ساتھ بطور اسم فی استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٥٨٢ء، کو "پنج گنج" میں مستعمل ملتا ہے۔
["ولی "," مَولا"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : مَوالی[مَوا + لی]
- جمع غیر ندائی : مَولاؤں[مَو (ولین) + لا + اوں (و مجہول)]
مولا کے معنی
"آپۖ نے حضرت علی کا ہاتھ تھام کر اعلان فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں" (١٩٧٦ء، حدیث غدیر، ١١٨)
راہنما میں تمکو اپنا جانتا ہوں، اے حضرت عشق میرے ہادی میرے مرشد میرے مولا تم ہی ہو (١٨٥٦ء، کلیات ظفر، ١١٥:٤)
"یا اللہ تیرا شکر ہے تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے مولا کیا نوکری ہے بیٹا" خرد کی گھتیاں سلجھا چکا میں مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر (١٩٩٠ء، اپنے لوگ، ١٦)(١٩٣٨ء، مال جبریل، ٢٤)
جب تک نہ علی ہولئے کل کے مولا واللہ کہ دین حق بھی کامل نہ ہوا (١٩٥١ء، آرزو لکھنوی، صحیفہ الہام، ٤٨)
"تم اس شخص کو پہچانتی ہو جو بیڑیوں میں جکڑا کھڑا ہے . جواب آیا یہ حسین بن منصور حلاج ہے میرا باپ ان کا مولا ہے" (١٩٨٣ء، دشت سوس، ٤٠٨)
لا مکاں رہتے ہیں مولا کی طرح بے گھروں کی خلوت و جلوت بھی دیکھ (١٩٨٠ء، شہر سدارنگ، ٧٤)
مرکبات
مولا مرتضی, مولا نما, مولائے کل, مولائے نجف, مولائے یثرب, مولا بخش, مولا دولا, مولا صفت, مولا علی