مچھلی کے معنی
مچھلی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ مَچھ + لی }
تفصیلات
iسنسکرت کا لفظ |مستی + ل| سے مچھلی بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٢٨ء کو "مشتاق (اردو، اکتوبر) میں مستعمل ملتا ہے۔, m["انسان کے بازو کا گوشت جو کسی قدر ابھرا ہوتا ہے","ایک آبی جانور جو لمبوترا ہوتا ہے۔ اس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں مگر عموماً سیاہی مائل سفید ہوتا ہے۔ بعض کے بدن پر گول چھلکے ہوتے ہیں۔ اس کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ اس میں اور دوسرے جانوروں میں یہ فرق ہے کہ اس کے پھیپڑے نہیں ہوتے اور یہ گلپھڑوں کے ذریعے سانس لیتی ہے۔ اس کا خون سرد ہوتا ہے۔ ٹانگوں کی بجائے پر ہوتے ہیں اور دم کے ذریعے مڑتی ہے ۔ اس کی ہزاروں قسمیں ہیں پانی سے نکالنے پر مر جاتی ہے","ایک بُرج","بچوں کا ایک کھیل جس میں مچھلی کی شکل کا کھلونا بالوں میں پروتے اور نچاتے ہیں","ساق حیوانات کا گوشت","مچھلی کی شکل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جو بعض زیورات میں لگائے جاتے ہیں","مچھلی کی صورت کا کان ایک زیور","ناک میں پہننے کا بلاق جو مچھلی کی صورت کا ہوتا ہے","وہ گوشت جو رانوں کے جوڑ میں ہوتا ہے","ہتھیلی کا اندرونی گوشت"]
متسی+ل مَچْھلی
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : مَچْھلِیاں[مَچھ + لِیاں]
- جمع غیر ندائی : مَچْھلِیوں[مَچھ + لِیوں (ومجہول)]
مچھلی کے معنی
"مچھلی نیبو کے عرق میں پیاز بھون کر تلی گئی تھی" (١٩٩٠ء، کالی حویلی، ٧٥۔)
"بائیں بازو کی مچھلی کے قریب شاید کسی مچھر نے کاٹ لیا تھا" (١٩٤٧ء، قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے، ١٦٦۔)
مچھلی سے خیال دوربیں ہے چشم کفِ دستِ نازنیں ہے (١٨٨٧ء، ترانۂ شوق، ١٢۔)
دل بیتاب کا ہے ناک میں دم تمہارے کان کی مچھلی بلا ہے (١٨٦٦ء، فیض (شمس الدین) دیوان، ٢٨٢۔)
"سینہ پر گوشت، کمر پتلی، مچھلے پلٹی، گردن تیار، رانوں کی مچھلی گھٹنوں تک" (١٩٢٨ء، باتوں کی باتیں، ٢٩۔)
جب سے ٹوٹا کھیلنے کا تار اے طفل حسیں بال کی ایک ایک مچھلی ماہی بے آب ہے (١٨٦٧ء، رشک (نوراللغات))
کیا کیا ہوا میں آئی ہیں زیور کی جھونک سے مچھلی اوڑا رہے ہیں وہ بالی کی ڈور پر (١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٩٥۔)
"کئی سے (سو) کہاریاں زربفتی لہنگے پہنے ہوئے مچھلیاں جڑاؤ والا. ماتھے پر لگائے زردار ڈوپٹوں . حاضر ہوئیں" (١٩٠٢ء، آفتاب شجاعت، ٧١١۔)
نشہ میں دل لیا علم آہ سے مرا درکار تھی کباب کو مچھلی نشان کی (١٨٤٧ء،کلیات منیر، ٢٦٥:١)
ستوراں کے سم تھے وگرد سپاہ کیتی نالہ مچھلی و ٹھاٹا بی ماہ (١٦٤٩ء، خاورنامہ، ٣٧٨۔)
کب اون ہونٹوں میں مچھلی کی گلوری آشکار ہے نمایاں حوض کوثر میں زمرد کا ہزارا ہے (١٨٥٨ء، امانت، دیوان،٨٨۔)
"وہ جوڑے بھی دھرے دھرے میلے ہو گئے، مچھلیاں چاٹ گئیں" (١٨٩٣ء، صورت حال، شاد عظیم آبادی، ٧٦۔)
آبرو پائے زر مسکوک آ کر ہاتھ میں اے بتو سکے کی مچھلی ماہی بے آب ہے (١٨٦٧ء، رشک (نوراللغات))
مچھلی کے مترادف
حوت, ماہی[1], ماہی
پستہ, جلمین, حوت, دیشارن, رگت, روراں, سسروا, سفری, سمندر, سمک, فش, گشترپاتھین, ماہی, مچھری, مچھریا, مچھی, مہاسر, نون
مچھلی کے جملے اور مرکبات
مچھلی پلاؤ, مچھلی کا تیل, مچھلی منڈی
مچھلی english meaning
a fish; the sing Piscesflesh of arm or forelegnose-ring like it. [~مونچھ]
شاعری
- حقیقیت سرخ مچھلی جانتی ہے
سمندر کتنا بوڑھا دیوتا ہے - پتے بالے ترے یاد آ ئے مجھے دریا پر
آئی مچھلی جو کوئی حلقہ گرداب کے پاس - ہوچکی تم سے مسیحائی دل بیمار کی
دیکھوتو بال کی مچھلی کو کہ اس میں دم نہیں - چنچل کا جھٹ چنچل دیکھت کہ یو اٹکا ہے جیو میرا
تھرکتا دیکھ مچھلی کوں کہ جیو کوڑ یال پانی میں - ترے لب اوپر چھپ سوں ہلتا ہے ہر مکڑا
کہ جیوں مچھلی آ آ کے ٹھنگتی ہے چارا - ہے مثل باغ کی سر سبز کونجڑے کا مکان
دھینور کا بحر میں مچھلی کا کھیلتا ہے شکار - غیر لے جائیں نہ اس گل کو کہیں بہرِ شکار
دل کھٹکتا ہے مرا مچھلی کا کانٹا دیکھ کر - مچھلی نے ڈھیل پائی ہے لقمے پہ شاد ہے
صیاد مطمئن ہے کہ کانٹا نگل گئی - پھڑک نتھنوں کی پھر ایسی ہی اچھی
تڑپ جوں تیرنے میں جائے مچھلی - میرے ترے روماولی جمنا و گنگا جوں مل اہیں
روں روں سو مچھلی ہوے کر کرتے ہیں تج گنگ دھار عیش
محاورات
- آم مچھلی کا ساتھ ہے
- آم مچھلی کی بھینٹ ہو ہی جاتا ہے
- اپنی دانو کو مچھلی دوسرے کی دانو کو کانٹا
- اندھی مچھلی کجبی جوئے
- ایک مچھلی سارے (تالاب) جل کو گندا کرتی ہے
- ایک مچھلی سارے تالاب (ایک جل) کو گندہ کرتی ہے
- بڑبک گئیلی مچھلی مارے۔ تاب ایلے گنوائے
- بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھاتی ہے
- بیٹی اور مری مچھلیاں رکھنے کی چیزیں نہیں
- پانی میں مچھلی۔ نو نو ٹکڑے حصہ