مچھلی
{ مَچھ + لی }
تفصیلات
iسنسکرت کا لفظ |مستی + ل| سے مچھلی بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٢٨ء کو "مشتاق (اردو، اکتوبر) میں مستعمل ملتا ہے۔
["متسی+ل "," مَچْھلی"]
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : مَچْھلِیاں[مَچھ + لِیاں]
- جمع غیر ندائی : مَچْھلِیوں[مَچھ + لِیوں (ومجہول)]
مچھلی کے معنی
"مچھلی نیبو کے عرق میں پیاز بھون کر تلی گئی تھی" (١٩٩٠ء، کالی حویلی، ٧٥۔)
"بائیں بازو کی مچھلی کے قریب شاید کسی مچھر نے کاٹ لیا تھا" (١٩٤٧ء، قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے، ١٦٦۔)
مچھلی سے خیال دوربیں ہے چشم کفِ دستِ نازنیں ہے (١٨٨٧ء، ترانۂ شوق، ١٢۔)
دل بیتاب کا ہے ناک میں دم تمہارے کان کی مچھلی بلا ہے (١٨٦٦ء، فیض (شمس الدین) دیوان، ٢٨٢۔)
"سینہ پر گوشت، کمر پتلی، مچھلے پلٹی، گردن تیار، رانوں کی مچھلی گھٹنوں تک" (١٩٢٨ء، باتوں کی باتیں، ٢٩۔)
جب سے ٹوٹا کھیلنے کا تار اے طفل حسیں بال کی ایک ایک مچھلی ماہی بے آب ہے (١٨٦٧ء، رشک (نوراللغات))
کیا کیا ہوا میں آئی ہیں زیور کی جھونک سے مچھلی اوڑا رہے ہیں وہ بالی کی ڈور پر (١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٩٥۔)
"کئی سے (سو) کہاریاں زربفتی لہنگے پہنے ہوئے مچھلیاں جڑاؤ والا. ماتھے پر لگائے زردار ڈوپٹوں . حاضر ہوئیں" (١٩٠٢ء، آفتاب شجاعت، ٧١١۔)
نشہ میں دل لیا علم آہ سے مرا درکار تھی کباب کو مچھلی نشان کی (١٨٤٧ء،کلیات منیر، ٢٦٥:١)
ستوراں کے سم تھے وگرد سپاہ کیتی نالہ مچھلی و ٹھاٹا بی ماہ (١٦٤٩ء، خاورنامہ، ٣٧٨۔)
کب اون ہونٹوں میں مچھلی کی گلوری آشکار ہے نمایاں حوض کوثر میں زمرد کا ہزارا ہے (١٨٥٨ء، امانت، دیوان،٨٨۔)
"وہ جوڑے بھی دھرے دھرے میلے ہو گئے، مچھلیاں چاٹ گئیں" (١٨٩٣ء، صورت حال، شاد عظیم آبادی، ٧٦۔)
آبرو پائے زر مسکوک آ کر ہاتھ میں اے بتو سکے کی مچھلی ماہی بے آب ہے (١٨٦٧ء، رشک (نوراللغات))
مترادف
حوت, ماہی[1], ماہی
مرکبات
مچھلی پلاؤ, مچھلی کا تیل, مچھلی منڈی
انگلش
["a fish; the sing Pisces"]